بغداد (جیوڈیسک) عراق میں بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات میں 37 افراد جاں بحق اور 70 سے زائد زخمی ہو گئے۔
فرقہ وارانہ کارروائیوں پر عراقی وزیراعظم سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کیخلاف بھڑک اٹھے، ان ممالک پر جہادیوں کو امداد دینے اور پرتشدد کارروائیوں کا الزام لگا دیا۔ شیعہ اکثریتی شہر الصدر سٹی میں موٹر سائیکل مارکیٹ میں موٹرسائیکل میں نصب بم کے پھٹنے سے دھماکے میں27 افراد جاں بحق اور40 زخمی ہو گئے، اسی شہر میں کار بم دھماکے میں بھی ایک شخص جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے۔
بغداد کے جنوبی علاقے مشاحادہ میں گشت کرنیوالے فوجیوں کے قریب کار بم دھماکے میں 2 فوجی جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔ادھر شرقت میں القاعدہ مخالف حکومتی ملیشیا سہوا کے اہلکاروں کے قریب بم دھماکے میں 2 جنگجو جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے۔ تزخرماتو میں پولیس اسٹیشن کے قریب بم دھماکے میں 2 افراد جاں بحق اور 15زخمی ہوگئے۔ صوبے کرکوک میں القاعدہ شدت پسندوں سے جھڑپوں میں 3 فوجی جاں بحق ہوگئے۔ القاعدہ سے منسلک سنی جنگجو شیعہ حکومت کیخلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عراق میں ایک سال کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں شدید تیزی دیکھی گئی ہے۔عراقیہ سرکاری ٹی وی کے ایک انٹرویو میں ان تازہ پرتشدد واقعات پر عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے ہمسایہ ملک پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ان جہادی گروپوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
وزیراعظم مالکی نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کچھ ممالک تو اپنے ہاں القاعدہ تنظیم آئی ایس آئی ایل کی موجودگی نہیں چاہتے لیکن وہ اس تنظیم کی عراق میں موجودگی چاہتے ہیں تاکہ فرقہ وارانہ تشدد بڑھایا جائے، ہم آئی ایس آئی ایل کی تفصیلات سے آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس تنظیم کے کن ریاستوں سے تعلقات ہیں جہاں سے ان کو فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ فلوجہ کے کچھ نواحی علاقوں میں شدت پسندوں کا قبضہ ہے تاہم فلوجہ کے سوا پورا انبار صوبہ حکومتی کنٹرول میں ہے، خدا شاہد ہے کہ اس تشدد کا ایک دن خاتمہ ضرور ہوگا۔