کائنات پر کچھ تحریر کرنے سے پہلے ہم اس کے بنانے والے رب کی قوت اور رہنمائی پر غور کر لیں کہ وہ کیا فرماتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ کا فرمان ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی بیان ہوا کہ”اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جاے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو بھی کفالت نہ کرے” (الکھف١٠٨۔١٠٩) دوسری جگہ فرمایا کہ”زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر]دوات بن جائے[ جسے سات سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں ]لکھنے سے[ ختم نہ ہوں” ( لقمان۔٧) ٍیہ ہے ہمارا اللہ اور اُس نے بنائی ہے یہ کائنات جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آسمانوں میں مذید کائنات ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے، جو اتنی وسیع ہے کہ آج کی سائنس کہتی ہے جو یہ ایک کہکشاں ہمیں نظر آ رہی ہے۔
ایسی لاتعداد کہکشائیں آسمانوں میں موجود ہیں جس تک سائنس کی دسترس اب تک ممکن نہیں ہوئی اللہ ہی ہے اس کا خالق اور بنانے والا ہے۔ مکہ کے کافر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے کہ اللہ کیسے پیدا کرے گا انسان کو جب وہ مٹی میں غرق ہو جائیں گے بلکہ مٹی میںگل مل جائیں گے تو اس پر اللہ کافروں سے فرماتا ہے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے یا اس اتنی بڑی کائنات کو پیدا کرنا بڑا کام تھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ کافر بھی مانتے تھے کہ کا ئنات کا خالق اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ”وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا” (السجدة٤)”اس آیات میں ایک آسمان کے بجائے آسمانوں کے ذکر معلوم ہوا کہ جو آسمان ہمیں نظر آتا ہے اس کے علاوہ بھی اور بھی آسمان ہیں جیسے آگے ذکر آرہا ہے کہ اللہ نے دو دن میں سات آسمان بنا دیے اُس کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ”سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب اور حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا سامان بھی مہےّا کر دیا یہ سب کام چار دن میں ہو گے پھر وہ آسمان کی طرف متوجہّ ہو ا جو اس وقت محض دُھواں تھا۔اُس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاو،خواہ تم چاہو یا نہ چاہو دونوں نے کہا ہم آ گے فر مانبرداروں کی طرح تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے اور آسمانوں میں اُس کاقانون وحی کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے ”( حٰم السجدة٩تا١٢) اس آیات کے لفظ دھواں کی تشریع کرتے ہوئے مولانا مودودی نے کہا کہ دھواں سے مرادما د ے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزا غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔
Universe
موجودہ زمانے کے سائنس داں اسی چیز کو سحابیے ((nebula سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے،اسی دُخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔ ( تفہیم القرآن جلدچہارم حاشیہ١٤ حٰم السّجدة) اللہ نے کائنات کو بر حق پیدا کیا۔ کائنات میں سب کچھ نہ اتفاقا ً پیدا ہوا ہے نہ اتفاقا ً نہ چل رہا ہے اِس کو ایک زبردست حکیم نے علم وحکمت کے ساتھ بنایا ہے اور یہ ایک قانون کے تحت چل رہی ہے ۔ مغرب کا تصور باطل ہے کہ یہ کائنات خود بخودایک دھماکے سے وجود میں آئی اور اب خود بخود چل رہی ہے ۔جن کے دلوں میں ٹیڑ ھ ہوتی ہے اُن کو یہ سیدھی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کائنات کا بنانے والا وہی ہے جس نے خودان دہریوں کو پیدا کیا اور ان کو رزق دے رہا ہے اُن کی زیست کے ساما ن اس کائنات میں مہیاّ کیے ہو ئے ہیں جس سے وہ زندہ رہ رہے ہیں۔کتنی کم ظرفی ہے انسان کی، جس کا کھا رہا ہے اُس اللہ کا احسان مند نہیں اور اس کی بندگی نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے اے انس وجن تم میری کن کن نعمتوں کے شکر گزار بنوں گے۔اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقررہ وقت تک کے لیے بنایا ہے جو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے جو پیغمبروں کو بھی معلوم نہیں۔ کائنات کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں۔ تدبیرکائنات کے کام کی روداد اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے۔کائنات کے تمام معاملات کی تدبیر اللہ تعالیٰ خود کر رہا ہے ساری کائنات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ کے ہاں انسان کی کتنی قدر ہے کہ اللہ نے انسان کے لیے اس کائنات کو بنایا ہے تاکہ انسان اس سے مستفید ہو، اللہ کا پیدا کردہ پانی جس میں زندگی ہے، روشنی جس کے بغیر نظامِ زندگی چلنا مشکل ہے، ہوا جس کے اندر انسان سانس لیتا ہے اگر تھوڑی دیر کے لیے ہوا بند ہو جائے تو انسان ہلاک ہو جائے۔
اناج یعنی گہیوں، چاول، چناو غیرہ اگر اللہ پیدا کرنے کے اسباب مہیا نہ کرے تو انسان تو انسان حیوانات کی زندگی مشکل میں پڑھ جائے، کئی اقسام کے پھل جس جو مزے میں لذید ہوتے ہیں جسے انسان بہت پسند کرتا ہے، حیوانات جن کا گوشت انسان استعمال کرتا ہے یہ ساری چیزیں انسان کی ضروریات ہیںاس لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اللہ نے انسان کو اس کائنات کے اندر خلیفہ یعنی نائب بنا کر عزت بخشی ہے۔
انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا یعنی اللہ کی تمام مخلوق سے انسان افضل ہے انسان سے اللہ تعالیٰ کی صرف یہ ڈیمانڈ ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ بن کے رہے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے،اللہ کی ہی عبادت کرے، اللہ ہی کے سامنے اپنی حاجت رکھے اور اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکے۔
اسی بندگی کے لیے قرآن میں انسان کو طرح طرح سے سمجھایا گیا مگر انسان بڑا جھگڑالو ہے کہ مان کے نہیں دیتا۔ مگر یاد رہے کہ اللہ صرف ماننے والوں سے ہی راضی ہوتا ہے نافرمانوں سے راضی نہیں ہوتا ہے انسان کی سب سے بڑی کامیابی اللہ کی خوشنودی ہے جس کی وجہ سے انسان جنت میں داخل کیا جائے گا اس لیے انسان کو اللہ کا فر مان بردار بندہ بننا چاہیے۔ ہماری دعاء ہے کہ اللہ سب انسانوں کو ہدیت دے آمین۔