اگر تو مذاکرات ہی سے امن ہو سکتا تو پھر یہ جنگیں کیوں ہوئیں ؟جن سے آج تک کروڑو ں انسان جانوروں کی طرح مارے گئے، اور یہ مہلک ہتھیار بنانے کی کیا ضرورت تھی، ی ایسے ہتھیار ایجاد کر لئے گئے ہیں، کیوں جن سے آناًفاناً، کرئہ ارض پر قیامت برپا کر دی جائے گی کوئی بچے گا… ؟ کہ آنے والوں کو بتائے کیا ہوأ، ملک میں گزشتہ دس برسوں میں گھرکے اندر دہشت گردی کے ناسور نے قوم کے جسم کے بعض اعضاء شل کر دئے ہیں ، پنجاب اسمبلی کی چاروں طرف اونچی فصیلیںکھڑی کر دی ہیںعوام کا گزر ممنوع ہے جبکہ ٦٥،اور ٧١ء میں بھی ایسا نہیں تھا ….آج ہر شخص مشکوک ہے… یہی نہیں دنیا میں پاکستانیوں کی شناخت دہشت گرد کے حوالے سے ہو رہی ہے، مذاکرات ہی سے امن ممکن ہوتا تو امن ہو جاتا کہ کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر صدیوں پہلے سیّد وارث شاہ نے اپنی غیر فانی شاعر” ہیر ” میں کہا ہے۔
عڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تِگڑیاں دا….؛ڈنڈے ، سوٹے ہی سے گھر میں یا گھر سے باہر بگڑے ہوؤں کو سیدھا کیا جاتا ہے …طرح طرح کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، مولانا سمیع الحق فرماتے ہیں، نہیں بلکہ حکومت کو وارننگ دے رہے ہیں حکومت ہوش کے ناخن لے اور طالبان سے مذاکرات کرے، مطلب یہ کہ دہشت گردوں (طالبان) کے خلاف کسی قسم کی فوجی کاروائی سے گریز کرے، ورنہ….انہوں نے کئی مرتبہ طالبان کی وکالت کرتے ہوئے حکومت کو تنبیہ کی ہے کے حالات مزید خراب ہونگے، بلکہ ….مولانا سید منور حسن صاحب قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے طالبان کی خلاف فوجی کاروائی کی تو حالات بے قابو ہو جائیں گے بلکہ ایک اور بنگلہ دیش بنے گا …سمجھ سے باہر ہے کس بنیاد پر اور کیوں عوام کو ڈرایا جا ہے ،جماعت اسلامی کا ایک ہی موقف ہے کہ حکومت مذاکرات کو ترجیح دے، اسلام اور ملک دشمن قوتیں آپریشن کے ذریعے حالات کو نو ریٹرن پوائنٹ پر لے جانا چاہتی ہیں ،مگر کبھی طالبان کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ وہ بھی ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی راہ اختیار کریں، کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار نہ بنے، یہ تو ظاہر ہے کہ ان دہشت گردوں کو سرمایہ اور ہر قسم کا جدید اسلحہ ملک دشمن قوتیں ہی فراہم کر رہی ہیں تاکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے ان کے زریعے حاصل ہو، اگر جماعت ملک و قوم کے ساتھ سنجیدہ ہے تو پھر طالبان کو مشورہ دیں کہ عوام کا قتل عام بند کریں۔
ملک کی سرحدوں کے محافظوں کے خلاف ہتھیار استعمال نہ کریں، تو پھر ملک و قوم کے ساتھ اُنکی ہمدردی واضح ہوگی یہی سوال دیگر راہنماؤں سے بھی ہے جو طالبان کے ساتھ کھلی ہمدردی یا دوسرے لفظوں میں اُن کے حمائتی ہیں …کہ ان کے ہاتھوں اب تک پچاس ہزار سے زائد نہتے عوام موت کی وادی میں قبل از وقت دکھیل دئے گئے اور آج بھی گھر سے نکلنے والے کو پتہ نہیں کہاں دھماکے یا خود کش حملے میں مارا جائے، ایک قومی اخبار نے اپنے جنرل رپورٹر کے ذریعہ اپنی ٢٧ فروری میں خبر دی ”اینٹی طالبان اے پی سی” جس میں ٥٠ سے زائد اہلسنت ولجماعت کی تنظیمات اور دیگر ہم خیال سیاسی و مذہبی جماعتیں شریک تھیں نے مشترکہ اعلامیہ میں طالبان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت مذاکرات فوری ختم کرکے فوری آپریشن کرے، جبکہ طالبان کی حماعت کو سنگین جرم قرار دیا جائے……!ایک دوسرے قومی اخبار نے اپنے نمائندہ خصوصی کے ذریعہ ٢٦ فروری کی اشاعت میں خبر دی ….علماء کنونشن و امن سیمینار جس میں ملک کی ٢٨ سے زائد دینی و سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں نے شرکت کی اور مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قیام امن کے لئے طالبان سمیت تمام مسلح گروپوں سے خودکش اور بم دھماکے بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے وزیر آعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ ان گروپوں سے مذاکراتی عمل کے لئے اپنا کردار ادا کریں جو پاکستان کے پرچم تلے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں امن کی راہ ہموار ہو سکے، مولانا طاہر محمود اشرفی کی زیر صدارت کنونشن کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ وزیرستان اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے حکومت انتظامات کرے۔
Peace
،امن عمل مکمل کرکے انہیں واپس بھیجا جائے…ایف کے ٢٣ جوانوں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کیا…. طالبان اور حکومت سے اللہ اور رسولۖکے واسطے جنگ کی بجائے امن کا راستہ اپنانے کی اپیل کی …. ملک میں جاری اس شورش میں حکومت نے آخری حد تک صبر کیا، بلکہ نہ صرف اربوں کا قومی نقصان برداشت کیا بلکہ اِس سے کہیں بڑھ کر اپنے ہزاروں فوجی جوان اور فیلڈ افسران بھی مروائے، اب طالبان کے حمائتی یا مذ اکرات کی گردان کرنے والے یا پھر موجودہ حالات کو ٧٠ء کے حالات سے ملا کے حکومت اور عوام کو خوف ذدہ کر رہے ہیں بتائیں اِس سے زیادہ حکومت اور کیا کر سکتی تھی جو اُس نے نہیں کیا، ١٩٧٠ء میں مشرقی پاکستان کے حالات سے فاٹا کے حالات کا موازنہ قطعی غلط اور .. …البتہ ماضی کی اور موجودہ حکومت نے یہ کام نہیں کیا کہ ریاست کا انتظام و انصرام طالبان کے حوالے کر دیا جاتا،اور اب بھی طالبان تحریک جسے پاکستانی قانون کے مطابق کالعدم قرار دیا ہے وہ پاکستان کے اِس قانون اور لگائی گئی کسی پا بندی کو تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ حکومت نے ان کو مذاکرات کی میز پر لا کر اُن کی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے … ،بلکہ اُن کے نزدیک تو پاکستان کا قانون و حکومت ہی کالعدم ہے ابھی تک کھل کر یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ مسلہ کیا ہے۔
کہ طالبان جنہیں عام زبان میں دہشت گرد کہا جاتا، اُن کے نزدیک تو حکومت دہشت گرد ہے جن کے خلاف وہ کار وائیاں کر رہے ہیں اُن کا مسلہ ہی یہ ہے کہ وزیرستان ہی نہیں پورے فاٹا کا انتظام اُن کے حوالے کیا جائے اور وزیرستان کو ریاست تسلیم کیا جائے . .. .ورنہ یہ تو وضاحت کی جائے کہ فوج پر کون اور کب حملے کرتا ہے اور نہتے عوام پر کب حملے کئے جاتے ہیں کل کی تاریخ موجود ہے کہ اگست ١٩٤٥ء میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے گئے نتیجے میں ھکومت نے گھٹنے ٹیک دئے ،طالبان کا عوام پر مسلسل بم دھماکے اور خود کش حملوں کے پس پردہ یہی جنگی حکمت عملی کار فرما ….! ، اور آج پھر میڈیا میں ترجمان طالبان کا بیان تھا کہ حکومت آپریشن کرنا چاہتی ہے تو شوق پورا کرے ہم غیر مشروط جنگ بندی نہیں کریں گے بھر پور جواب دیں گے پھولوں کے ہار نہیں ….اب ایسا بیان کون دیتا …اگر ایسا ہی بیان بھارت کی طرف سے آئے تب یہ طالبان حمائتی کیا رد ِ عمل دیں گے ،طالبان کہتے ہیں کہ کسی صورت جنگ بندی نہیں کریں گے اُنہیں یہ علم ہے کہ اُن کے حمائتی بھر پور وکالت کرتے ہوئے حکومت ہی کو مورد الزام ٹھیرائیں گے ….مگر اب خبروں کے مطابق حالات بدل گئے پوری قوم حکومت اور فوج کی پشت پر کھڑی نظر آ رہی ہے اِس لئے۔