ہمارے دینی معاشرے کی کچھ جلتی حقیقتیں ایسی ہیں جن کااعتراف گو کہ بہت مشکل ہے ،لیکن اِن کے اعتراف کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہیں۔ہمیں بہر صورت اِن کا بلا لحاظِ تردُّد اعتراف کرنا ہوگا۔اِن حقیقتوں میں سے ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ واقعتا ہم مسلمانوں کو نہیں معلوم کہ ایک مؤمن یا مسلم کی قدر و قیمت کیاہوتی ہے۔!ہم تو خیر ایک عام آدمی ہیں، خود مسلمان بھی عام ہی ہوتے ہیں، مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے خواص تک شاید ایک مومن و مسلم کی قدر وقیمت سے واقف نہیں ہیں۔ جمعہ کے بیانات، عیدین کے خطبات اور ہر شہر میںمختلف مواقع پر دیے جانے والے سال میں کم از کم دو سو سے تین سو بیانات اِس حقیقت کے گواہ ہیں۔ ایک سال کے دوران جو بیانات ہمیں سنائے جاتے ہیں، اِن میں سے کسی بھی بیان میں آج تک ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آسمانی ہدایت کی ابدی کتاب قرآن شریف ناموسِ مومن و مسلم کے بارے میں کیا کہتی ہے، اور ہمارے آقائے نامدار جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات میں ایک مومن اور مسلم کی کیا قدر و قیمت متعین کی گئی ہے ؟نہیں بتایا جاتاکہ حرمتِ مومن و مسلم کیا ہے؟ ہاں، شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ مسلم کی جان کو کیوں کر اور کس کس طرح سے سستا بنایا جائے۔ جب بھی چاہیں، جیسے بھی چاہیں ، جتنے بھی چاہیں، مسلمانوں کوکس طرح اور کیسے زک پہنچائی جائے، یہاں تک کہ بالآخر اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دینے سے تک دریغ نہ کیا جائے،اور محض اِس ایک بنیا د پر کہ فلاں مومن فرد یا گروہ یا فلاں مسلم فردیا گروہ ہمارے خیال و عقیدے کی رُو سے مومن و مسلم ہے ہی نہیں۔بالفاظِ دیگر جو ہمارے عقیدہ و مسلک کا نہیں وہ ہمارا نہیں، چاہے وہ ”لا الہ الا اللہ”کہنے والا ہی کیوں نہ ہو، ہمیں ”سلام” ہی کیوں نہ کرنے والا ہو، ہماری نمازوں کی طرح وہ نماز ادا کرنے والا ہی کیوں نہ ہو،ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ ہی کیوں نہ مانتا ہو اورہمارے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت ہی کیوں نہ کھانے والا ہو۔ مذکورہ خطبات و بیانات کا منشاء صرف یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی طریقے سے کسی نہ کسی مسلک و عقیدے سے تعلق رکھنے والے مومن و مسلم کو بے قدر وقیمت کر دیا جائے، اُسے ذلیل و خوار کر دیا جائے، اُس کے خلاف ایسی فضاء بنائی جائے ، کہ اگر رفتہ رفتہ کسی مرحلے میں اُس کی جان بھی چلی جاتی ہے تو اِس کی پروا ہ نہیں ہونی چاہیے۔ اُف!… یہ ہے ہمارے خواص کا حال۔جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی جذباتِ اُخوت و اُلفت کا پیامبر دین ہے جسے آقائے نامدار جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا تھا۔؟
کیا ہم میں اِتنی جرأت باقی رہ گئی ہے کہ اپنے خود ساختہ نظریات کو چھوڑ کرکم از کم اب تو ہم آسما نی ہدایت کی روشنی میں معلوم کریںکہ وہ ایک انسانی جان کی قدر و قیمت کیا مقرر کرتی ہے؟ اور ایک مؤمن اور مسلم کے جان ومال کی حرمت کیا ہے؟ہمارے اپنے علاوہ ہم کو کسے مسلم کہنا ہے اور کسے مومن سمجھنا ہے؟پھر یہ کہ اِس سلسلے میں ہدایتِ اِلٰہی کے عطا کردہ” قانونِ حرمتِ اِنسان” کی خلاف ورزی کی سزا کیا ہے اوریہ سزا کس قدر ہے اور کتنی شدید ہے؟تو آئیے، کتاب اللہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں حرمتِ مومن و مسلم کے بارے میں ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ١)… ہمیں اور ہمارے رہنماؤں کواتنی فر صت کہاں کہ وہ سرسری طور پر اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتے۔اگر اللہ کی توفیق سے اگر وہ سمجھنے کی نیت سے پڑھیں تو صاف سمجھ میں آ جائے گا کہ کسی بھی انسان کا ناحق قتل نہ صرف گناہِ کبیرہ ہے، بلکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ جیسے ساری انسانیت کو ہی قتل کر ڈالاجائے۔ملاحظہ فرمائیں سورة المائدہ(٥):مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ۔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہ’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْر نٍَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی اْلَارْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔ وَ مَنْ اَحْیَا ھَا فَکَاَ نَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا… یعنی،”اِس (دُنیا کے پہلے ہی قتل کے)وقت سے (ہم نے یہ طے کردیا تھا) اور یہی حکم کتابی شکل میں بھی ہم نے بنی اسرائیل کو دے دیا تھا کہ ، جو کوئی کسی نفس کو بغیر کسی نفس کے قتل کردے ، یا زمین میں فساد مچائے، تو گویا اُس نے تمام انسانوں کا قتل کردیا، اور جس نے کسی ایک نفس کی جان بچائی، گویا اُس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی…”(٣٢)۔
پھر مؤمن یا مسلم کون ہے، اور کسی مومن اور مسلم کے قتل کی کیا سزا ہے، سورۂ النسائ(٤) میں ان الفاظ میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے:یٰا یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فیِْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا…”اے ایمان کے دعویدار لوگو! جب تم اللہ کی راہ میں جنگی سفر کرو،تو تحقیق کرلیا کرو، اورجس شخص نے تمہیں سلام کیا،تم اُس کے لئے ہرگز یہ مت کہنا کہ تو مومن نہیںہے…”(٩٤)۔
۔وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہ’ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہ’ وَ اَعَدِّ لَہ’ عَذَابًا عَظِیْمًا…” اور جوکوئی بھی کسی مومن کا جان بوجھ کر ارادتاً قتل کردے، تو اُس کی سزا جہنم ہی ہوسکتی ہے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔غضبناک ہوا اللہ اُس پر، اور لعنت کی اُس پر، اور اللہ نے اُس کے لئے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔”(٩٣)۔
٢)…یہ وہ آیات ہیں جن کا ذکر نہ کسی دینی محفل میں ہوتا ہے ، نہ کسی ”دینی اسکالر” کی زبان سے اِن آیتوں کے حوالے سننے کو ملتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جان بوجھ کر اِن آیات کومعاذ اللہBlack Outکیا جارہا ہے، تاکہ دینی شہ زوری اور مذہبی ٹھیکیداری میں کوئی کمزوری واقع نہ ہونے پائے۔یہی سبب ہے کہ آج قرآن اور حدیث کے پیش کردہ دین کے بالکل متوازی طور پر ایک اور ہی دین مسلمانوں میں رواج پاگیا ہے۔اور اس متوازی دین کو قرآنی حکم یا اُسوۂ رسول ۖسے وابستہ کرنے کی کوشش بھی جاری رہتی ہے۔
نہ جانے کتنی بار یہ آیتیں ہماری نظروں سے گزرتی ہیں اورنہ جانے کتنی مرتبہ اِس کی ہم تلاوت کرتے رہتے ہیں، پھربھی خود اہلِ ایمان کے افراد یا گروہوں کے بارے میں تواتر کے ساتھ کفر کا حکم لگا نے کا عمل جاری رہتا ہے کہ فلاں مومن نہیں،یا فلاںشخص مسلمانوں کے حلقے سے خارج ہو گیا، وغیرہ وغیرہ۔مگر قرآن ہم سے باصرار کہتاہے کہ اگر کوئی تمہارے لیے زبانی طور پر” سلام” کا لفظ ہی ادا کر دے، تویہی لفظ اُس کے مومن ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ اُسے غیر مومن کہنے کا اِختیار باقی نہیں رہتا۔اور اِس پر مستزاد یہ کہ،یہ حکم بھی جنگ جیسے غیر معمولی حالات کے لئے دیا گیا ہے تو نارمل حالات کی تو بات ہی کیا ہے۔ !!!
٣)…ذخیرۂ احادیث میں بھی کئی مثالیں ہمیں ایسی ملتی ہیں ،جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اِن کے تذکرے دینی محفلوں میں کیوں مفقود ہیں اور مزاجِ مصطفوی ۖ سے الگ مزاج ہمارایہ کیسے بن گیا !! مثلاً یہ حدیث ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:”…اُسَامَہ بِنْ زید قَالَ بَعَثْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم اِلَی الْحُرُقَاتِ فَاَدْرَکْنَا رَجُلاً فَلَمَّا غَشَّیْنٰہ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ فَضَرَبْنٰہ حَتّٰیْ قَتَلْنٰہ فَذَکَرْتُھَا لِلنَّبِیْ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم فَقَالَ مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؟فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ اِنَّمَا قَالَھَا مَخَافَةَ السِّلَاحِ ،قَالَ اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتّٰیْ تَعْلَمَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ قَالَھَا اَمْ لَا۔مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَمَا زَالَ یَقُوْلُھَا حَتّٰیْ وَددْتُ اَ نِّیْ لَمْ اَسْلَمْ اِلَّا یَوْمَئِذٍ…”۔( ابو داؤد جلد اول ۔کِتَابُ الْجِہَادِ ۔ بَابُ عَلٰی مَا یُقَاتِلُ الْمُشْرِکُونْ ۔ بخاری اور مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے۔)۔”’… اسا مہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ۖ نے” حرقات ” کی طرف ہمارا لشکر بنا کر بھیجا۔ ہماری مہم کے ایک مرحلے میں ہم نے ایک آدمی کو پایا۔ہم جب اُس پر(حملہ آور ہوئے اور ) چڑھ بیٹھے تو اُس نے کہا : ”لا الہ الا اللہ”۔ پھر بھی ہم نے اُسے قتل کردیا۔ اپنی مہم سے واپسی پرنبی صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے اِس کا تذکرہ کیا،تو آپۖ نے ارشاد فرمایا:” قیامت کے دن اسکے ”لا الہ الا اللہ”کے مقابلہ میںتمہیںبچانے والا کون ہوگا؟میں نے کہا:” یا رسول اللہ،اُس نے تو کلمہ طیبہ ہتھیارکے ڈر سے اداکیاتھا۔آپۖ نے فرمایا: تم نے اُس کا دل چیر کر کیوں نہیںدیکھ لیا کہ تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اُس نے ہتھیار سے ڈر کر کہا ہے یا کسی اور وجہ سے ۔! ”لا الہ الا اللہ”کے مقابلہ میں قیامت کے دن تمہارا کون ہوگا؟ آپۖ برابر(اِن الفاظ کو) دہراتے رہے… ” (ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اس نے سلام کیاتھا)۔یہ حدیث تو دراصل اُس طرزِ فکر پر ہی تیشہ چلاتی ہے ، جو اہلِ ایمان کے دلوں میں دراڑیں پیدا کرنے کی موجب بنتی رہتی ہے اورہمارے دلوں میں کجی پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ آج دھڑا دھڑ ہر کس و ناکس پر کفر کے فتوئوں کی بارش ہوتی ہے ، اور کچھ لوگ خود ساختہ طور پر صرف اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں ناجی ہونے کی سرٹیفکٹ پرخود ہی دستخظ ثبت کرتے رہتے ہیں۔
٤)…اسی طرح درج ذیل حدیث تو فکر و خیال کے اُن قلعوں کو ڈھا دیتی ہے، جن میں کچھ” خود ساختہ جنتی لوگوں”نے اپنے آپ کو محصور کر رکھا ہے: ”… عَنْ اَنَسٍ ابْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم مَنْ صَلّٰی صَلوٰتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَ کَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذَالِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہ ذِمَّةُ اللّٰہِ وَذِمَّةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم فَلَا تُخْفِرُ اللّٰہَ فِیْ ذِمَّتِہ …”(رواہ البخاری ۔ کتاب الصلوٰة ۔ باب فضل استقبال القبلة)۔”…حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو شخص ہم جیسی نماز ادا کرے ،ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ مانے، ہمارے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت کھائے، وہ مسلمان ہے ، اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی امان میں ہے۔ لہٰذا جو اللہ اور اسکے رسولۖ کی امان میںہے اس پر دست درازی نہ کرنا۔” کیا اِتنے صاف اور واضح الفاظ کے بعد بھی ہم کبھی کسی پر کفر وضلالت کا فتویٰ صادر کرسکتے ہیں؟
٥)…اِس حدیث میں تو اور بھی خوفناک نتیجے کی دھمکی موجود ہے : ”… عَنْ اَبِیْ بَکْرَةَ قَا لَ اِ نِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم یَقُوْلُ اِذَا تَوَاجَہَ الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْھِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قَالَ فَقُلْتُ اَوْ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَ الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ؟قَالَ اِنَّہ قَدْ اَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِہ…”(مسلم شریف۔کتاب الفتن واشراط ا لسّاعة )۔”حضرت ابو بکرة روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :’ ‘جب دو مسلمان ایک دوسرے پرتلوار سونت کر آمنے سامنے آجائیں، تو قاتل بھی جہنمی ہے اور مقتول بھی۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ۖ !قاتل کاجہنم رسید ہوناتو سمجھ میں آتا ہے، مگر مقتول بھی …!!! آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا:”وہ بھی تو اپنے مسلمان ساتھی پر تلوار سونت کر سامنے آگیا تھا۔ اگر اس کا وار کام کرجاتا تو وہ بھی یقینا قاتل بن جاتا۔’
Holy Quran
قرآن شریف اور احادیثِ شریفہ کے مندرجہ بالاحوالوں کے بعد بھی کیا ہمارے ادارے، ہماری مذہبی و مسلکی اکائیاں ایک معتدل دینی فکرکو ابھر نے کا موقع نہیں فراہم کریں گی؟ شاید نہیں۔ منبر اور محراب سے رات دن اپنے مخالفین کے خلاف کفرو ضلالت کے فتوئوں کا بازار گرم رکھنے والے، دینی تعلیم کے نام پر اپنے مسلکی فرقہ وارانہ نظریات کی صف بندی کے علمبردار ،کیا فکر معتدل کو اُبھرنے کا موقع بھی دیں گے؟ظاہر ہے ، اِس کے آثاردو ردورتک نظر نہیں آتے۔کیوں کہ فروعاتِ دینی پر اصرار اِس قدربڑھ گیا ہے کہ ہر فرقے نے اپنے لیے الگ الگ وضع قطع کا لباس اِختیار کر رکھا ہے،یہاں تک کی ٹوپیوں کی بناوٹ اور داڑھی کی تراش خراش تک پکار پکار کہتی ہے کہ کون کس مسلکی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے،اور کس فرقے کی دشمنی کس فرقہ کے ساتھ کس قدر شدت کی حامل ہے۔!!ٹھیک ہے، یہ سب کچھ ضرور چلایا جاسکتا ہے،ٹوپی اورداڑھی جیسے محترم اُمور پر کسی کو اعتراض کی جرٔت کیسے ہو سکتی ہے، لیکن سوال اپنی جگہ پرجوں کا توں ہے کہ ایسا کیوں ہے ، کہ ہماری یہ مسلکی اکائیاں ایک دوسرے کے خلاف یہ محاذ آرائیاں برپا کرتی رہتی ہیں؟کیا رات دن جاری یہ ساری سرگرمیاں دینی محنت سے زیادہ، صرف اور صرف فرقہ واریت کو ہی بڑھاوا دینے کی محنتیں نہیں ہیں؟ جو آج ایک بنیان ِمرسوس قوم میں اختلافات کی دراڑیں اُبھارنے میں کامیاب ہو گئی ہیں، جن کے اثرات قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔ جوکچھ انجام آج ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے اورقوم کے دل جو آج پھٹے نظر آتے ہیں،تو اِس کا سبب وہ موضوعات ہیں جو ہر ہفتے اور ہر مذہبی تقریب کے موقع پر ایک ڈوز کی شکل میں لوگوں کو عموماً اورنوجوانوں کے خون کو خصوصاً گرماتے رہتے ہیں۔ خواص کی روش ہائے غفلت کے درمیان ،اِس صورتحال کا تدارک کیسے ہو؟ قرآن شریف کے مذکورہ احکامات کو کیسے عام کیا جائے، بلکہ خود قرآن شریف ہی کو کیسے عام کیا جائے؟ مذکورہ حدیثوں پرجو پردے ڈالے جا چکے ہیں اُنہیں کیسے اُٹھایا جائے؟اور کیسے عوام تک اِن حدیثوں کی ترسیل ہو؟ شاید اب عوام کو ہی اس کام کے لئے اُٹھنا ہوگا۔
ورنہ شایدیہ قوم خواص کی جانب سے مسلسل بھڑکائی جانے والی آپسی چپقلشوں کی اِس جنگ میں خود اپنے ہی بھائیوں کے قتل کی مرتکب ہو کر تاریخ کا ایک حصہ بن جائے گی …اور اللہ کسی اور قوم کو دینِ حق کا علمبردار بنا کر کھڑا کر دے گا!ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس میں نہ امریکہ کی سازش کا ہاتھ ہے اور نہ اِن اِختلافات میں کوئی افریقہ قسم کا کوئی ملک شامل ہے۔ اِس سازش کے تانے بانے اُن ہی خواص کی اُنگلیوں نے بُنے ہیں،جو دین کے نام پر فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں،جیسے وہ کسی تعمیری کام کرنے کی صلاحیت سے ہی محروم کردئے گئے ہوں اورجیسے وہ سمجھتے ہوں کہ اگر وہ یہ کام انجام نہ دیں تو بڑ ے پیمانے پر قوم میں بے روزگاری کے پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔
غیر مسلموں میں بھی، جیسا کہ ہندوئوں میں ہم کئی فرقے دیکھتے ہیں، اور یہ بھی کہ ہر فرقے کے الگ الگ منادر ہیں۔ کبھی ہم نے نہیں سنا کہ ایک فرقہ والاہندو دوسرے فرقے کے مندرکو جلاتا ہو،جس کے ساتھ اُن کی مقدس کتاب بھی جل جاتی ہو۔ عیسائیوں میں بھی مختلف فرقوں کی موجودگی ہے اور ہر فرقے کے علیحدہ چرچ بھی ہیں۔ ان کے تعلق سے بھی نہیں سنا جاتاکہ کبھی کسی فرقے نے کسی دوسرے کے چرچ کو نذرِ آتش کیا ہو۔ذرا ہماری قوم کے اُن نادانوں سے ایک سوال پوچھا جائے کہ جب وہ اپنے مخالف فرقے کی مسجد کو جلانے کا پلان بناتے ہیں، تو کیا وہ جلانے سے پہلے وہاں سے قرآن شریف کے نسخوں کو احتیاطاًباہر نکالنے کا انتظام بھی کرتے ہیں؟یا انہیں بھی جلا ڈالتے ہیں؟ شاید اِس سوال کے جواب کے لیے” مملکتِ خداداد”کا سفر کرنا پڑے گا، اس لئے کہ اسے اس دعوےٰ کے ساتھ عالمِ وجود میں لایا گیا تھا کہ یہ بر صغیر میں اسلامm کا قلعہ ہوگا:… کس منہ سے جاؤگے غالب شرم تم کو مگرنہیں آتی دورِ حاضر میں انسانی خون کی یہ ارزانی ، ایک شخص کے قتل کے لئے سینکڑوں بے گناہوں کو بے دردی سے مار دیا جانا، سرکاری اور نجی املاک کی تباہی، بے قابوعوام کی شورش،نوجوان خون کو جوش دلانے کے یہ رات دن کے ڈوز،شاید اب ہماری مکمل تباہی کا پیغام لے کے آئے ہیں اور بالآخرہمیں ایک خونی Disaster سے ہی دوچار کرکے دم لیں گے۔
اب خود سے یہ سوال کرنا ہوگاکہ اگر کوئی اپنے آپ کو” مسلم اور مومن” سمجھے اور کبھی ہمیں سلام کا نذرانہ پیش کر ے تو کیا ہم میں یہ جرأت ہوگی کہ اِس کے”سلام ”کا خیرمقدم اور احترام کے ساتھ جواب دیا جائے…؟کیا اب بھی ہم کویہ استحقاق حاصل رہے گا کہ اپنے خود ساختہ خیالات کی بنیاد پر سلام کرنے والے کو ”مسلم اور مومن ”نہ ما ننے کے جرم کو جاری رکھیں…؟کیا ہم اب بھی چاہیں گے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی حرمت شدہ چیزوں سے آگے بڑھ کر ہر کس و ناکس پر کفر کا لیبل لگاتے پھریں ؟ آخر ہم نے ایک سائنٹفک اور باکمال دین کا یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟