یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا

Russian Military

Russian Military

کیو (جیوڈیسک) یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے، روسی فوج نے کریمیا میں یوکرینی فوجی اڈوں کا گھیراوٴ کر لیا ہے، یوکرین کے نیول چیف روس نواز حلقوں سے جاملے ہیں، روسی صدر نے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن اور رابطہ گروپ کے قیام کی پیش کش قبول کرلی ہے

امریکی صدر اوباما نے روسی اقدام کو یوکرین کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کریمیا میں روسی فوج نے یوکرین کے بری اور بحری فوجی اڈوں کا گھیراوٴ کر لیا ہے اور یوکرینی فوج سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کریمیا کی بیش تر سرکاری عمارتوں پر روس نواز جنگجووٴں کا قبضہ برقرار ہے۔ ادھر یوکرین بحریہ کے سربراہ نے کریمیا کی روس نواز انتظامیہ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جس پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

روسی فوج کی پیش قدمی کے جواب میں یوکرین نے اپنی افواج کو مکمل تیار رہنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں اور ریزرو فوجیوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب روسی وزیراعظم دمیتری میدیدوف کا کہنا ہے کہ یوکرین میں حکومت پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا جس کا خاتمہ انقلاب کے ذریعے ہوگا۔

روسی صدر پیوٹن نے یوکرین کے معاملے پر جرمن چانسلر اینجلا مرکیل سے فون پر بات کی اور جرمن چانسلر کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن اور مسئلے کے حل کے لیے رابطہ کار گروپ کی تشکیل کی پیش کش قبول کرلی۔ ادھر برطانیہ نے روسی اقدام کے خلاف سوچی پیرا اولمپکس کا بائیکاٹ کردیاہے۔ برطانوی وزیرخارجہ صورت حال پر بات چیت کے لیے یوکرین پہنچ چکے ہیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری منگل کو یوکرین کا دورہ کریں گے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین میں فوجی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ مسئلے کا سیاسی اور سفارتی حل تلاش کیا جارہا ہے۔ یوکرین کے بحران پر نیٹو کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ روسی اقدامات کے باعث یورپ کے امن و استحکام کو خطرہ ہے۔