مارچ کا آغاز ہو چکا۔ سردیاں رخصت ہونے کو ہیں، بہار کی آمد آمد ہے۔ زرد چہرے سرخی مائل ہونے لگے ہیں۔ نیا خون جسموں میں بننے لگا ہے۔ پرندوں کے غول جشن بہاریاں منانے کو بے تاب ہیں۔ امید کی کرنیں پھوٹنے لگی ہیں۔ مرجھائے چہروں پر رونق چھا رہی ہے۔ جہاں انسان بہار کی آمد پر کھلکھلا اٹھے ہیں، وہی پر چرند پر ند بھی محفلیں سجا رہے ہیں۔ ٹنڈمنڈ درختوں پر کو نپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ زرد موسم الوداع ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ گندم کے کھیت جھوم رہے ہیں اور کسانوں کی محنت کا پھل تیار ہے۔
ہر طرف بہار کا سماں ہے مگر بیچارے ٹنڈ منڈ درخت رو رہے ہیں۔ آدھ کٹے بے شمار درخت دوہائیاں دے رہے ہیں۔ ہماری اعلیٰ ظرفی دیکھو ، چپ چاپ ان کو کٹتا دیکھے جا رہے ہیں۔ آج فضاء آلودہ ہے۔ بے شمار بیماریاں سر اٹھے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کوبھی نوچ رہی ہیں۔ ہر چہرہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے۔ سیلابی پانی ہزاروں ایکڑ اراضی ہڑپ کر گیا ہے اور کر رہا ہے۔ زمینی کٹائو سونا اگالنے والے کھیت بنجر کر گیا ہے۔ لاکھوں لوگ سانس کی بیماری میں مبتلا پھرتے ہیں۔
سوچ طلب بات یہ ہے کہ ہر سال حکومتی سطح پر شجر کاری مہم کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر افسوس شجر کاری مہم کے نام پر اربوں کافنڈ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ بس ایک پودہ لگایا دیا ،اخبار والوں کو تصویریں دے دیں۔ پبلک سٹی ہو گئی، ٹی، وی پر ، اخباروں میں چھپ گئے، بات ختم۔پھر سال بھر اس بیچارے پودے کی طرف بھولے سے بھی نگاہ نہیں ڈالی جاتی۔ بیچارے پودے خاک بڑھیں گے، چند دن میں زندگی سے موت کے حوالے ہوجاتے ہیں۔
ٹھنڈی ہوا دیتی گاڑیوں میں سفر کرنے والے ہمارے حکمران اس طرف توجہ کیوں کر دیں گے۔ جن لوگوں کو جنگلات کی دیکھ بھال کے عہدے دیئے جاتے ہی ،ا ن کی تو ہر روز عید ہوتی ہے۔ اپنی تجوریاں بھر نی کی غرض سے ملک کو اربوں کا خسارہ دے رہے ہیں۔۔ رشوت خوری کے جراثیم ہماری رگوں میں خون کی طرح ڈور رہے ہیں۔اب تو رشوت کو بھی جدید نام دے دیا ہے۔ رکھ لیں (بچوں کی مٹھائی) ہے۔ صاحب ہماری طرف سے (انعام) قبول کیجئے۔ جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی حرام کھلا رہے ہیں۔ پھر اولاد نافرمان کیوں نہ ہو۔نیک اولاد کی خواہش رکھنے والے کیونکر بھول جاتے ہیں کہ اولاد کے بگڑنے میں نوے فیصد ان کا اور دس فیصد معاشرے کا کردار ہوتا ہے۔ ڈنڈوڑا پیٹے تھکتے نہیں ہے کہ اولاد نافرمان ہو گئی ہے، سکون نہیں ملتا،نیند نہیں آتی، فلاں بیماری،فلاں بیماری حملہ کر گئی ہے۔بیماریوں کو واسطہ یا بالواسطہ ہم خود ہی دعوت دے رہے ہیں۔
Forest
جنگلات کی حفاظت پر معمور حضرات ہی جنگلات کو اجاڑ رہے ہیں۔ ملی بھگت سے کتنے جنگلات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کئی مٹنے چلے ہیں۔ اعلیٰ لکڑی کی سمگلنگ سر عام جاری ہے۔ جو حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کو نظر نہیں آتا تومیں آپ کو دیکھاتاہوں، رات کے کسی پہر چھانگا مانگا، یا کسی نہر کے کنارے کا وزٹ کر کے دیکھیں، کئی ٹرک، ٹرلیاں لکڑیوں سے لوڈ ہو کر جارہے ہوں گے۔ میرے علاقے کو سدا بہار نہر سیراب کرتی ہے۔ ایک وقت تھا اس کے دونوں کنارے سرسبز درختوں کی لمبی قطاروں کا منظر پیش کرتے تھے۔ مگر افسوس آج کئی کٹ گئے۔ کئی سوکھ گئے۔ ان آنکھوں نے خود دیکھا ہے، متعلقہ افسر اپنی موجودگی میںسرسبز درختوں کی کٹائی کرا رہا ہوتا ہے۔ بات کرو تو الٹا چور کتوال کو ڈانٹے والی بات ہو جاتی ہے۔ کئی کرپٹ پولیس آفیسر مشوروں سے نواز رہے ہوتے ہیں کہ درختوں کے نمبر لگے جگہ سے اوپر اوپر کاٹ لیں۔ کون پکڑے گا۔؟ ان کی بات بھی درست ہے کون پکڑے گے۔ پکڑے والے تو خود ملوث ہیں۔ پھر کسی اور کی کیا مجال ہے۔
میری صاحب اقتدار لوگوں سے استدعا ہے کہ شجر کاری نہیں کروا سکتا تو کم از کم ہمارے آبائو اجداد کے زمانے کے لگے درختوں کو کٹنے سے توبچا سکتے ہیں۔اگرکٹائی کا عمل اسی طرح جاری و ساری رہا تو وہ دن دُور نہیں جب پاکستان کی سر زمین سے درخت نایاب ہو جائیں گے۔ملک فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہوگا،اس ملک میں بسنے والے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جان دیتے جائیں گے۔جہاں ملک زمینی کٹائو کا شکار ہو جائے گا وہاںدرختوں سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے محروم ہو جائے گا۔لہذا درختوں کی کٹائی رکوائی جائے۔ کرپت آفسروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئند کوئی ایسی غلطی کا مرتکب نہ ہو۔ ملک تازہ ہوا سے سر شار ہو اور درخت آکسیجن مہیا کر سکیں۔
حکومتی سطح پر اور اسکول لیول پر پروگرام کیے جائیں تاکہ نئی نسل اس طرف راغب ہو۔زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے ایک درخت کو بچانا ایک زندگی کو بچا نا ہے۔ کیوں نہ پاکستان کی بنجر ہوتی زمین کو بچایا جائے۔ جنگلات لگا کر ملک کو سر سبز و شاداب بنایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہم اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچا سکتے ہیں۔