کراچی میں ڈاکو راج

Karachi

Karachi

گذشتہ چھبس سالوں سے کراچی آگ اور خون کے جنگل کی طرح مسلسل جل رہا ہے۔ یہ شہرِ بے امان،روزانہ ٹار گیٹیڈ کلنگ، اغوا برائے تاوان،اور ڈکیتیان پڑ رہی ہیں۔ مگر ان جرائم کا کرنے والا کوئی ایک بھی کلر، اغوا کنندہ،بھتہ خور اور ڈاکو پکڑا نہیں جاتا ہے۔روزانہ کیمروں کی بنائی ہوئی فٹیج کے باوجود کوئی بینک لوٹنے ولا ڈاکو پکڑا نہیں جاتا ہے۔ لوگ پاکستان کو ایجنسی اسٹیت کہتے ہیں،۔مگر یہاں تو ”پتھر بندھے اور کُتے آزاد”دنداناتے پھر رہے ہیں۔

بھتے کی پرچیاں کھلے عام بانٹی جا رہی ہیں۔گویا روشنیوں کا شہر آج چور اچکوں اور ڈاکووں لٹیروں،بھتہ مافیہ اور قاتلوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ان میں سے اکثر اتنے سفاک ہیں کہ اپنے رشتے داروں اور اساتذہ کو بھی پہچان لینے کے باوجود نہیں بخشتے ہیں اورطالبان تو شائد مگر یہ ظالمان لوگوں کولوٹ لینے کے بعد راہیِ عدم بھی کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کو ظالمان کی اصطلاح سے یاد کرتا ہوں۔ان کے ہاتھوں نا صرف کراچی برباد ہو رہا ہے بلکہ کراچی کا ہر دوسرا گھر بربادی کا کھلا نشان دکھائی دیتا ہے۔ان ظالماکے ہاتھوں پر ایسے دستانے چڑھے ہیں جن کے نیچے کراچی شہر کا لہوشناخت کرنا مشکل نہیں ہے ….مگر تلاش کون کر ے گا؟ان کے دستانے اتارنے کی بڑے بڑوں کو ہمت نہیں ہے۔نہ صرف شہر ان کی وجہ سے بربادی کا نشان بنا ہوا ہے بلکہ ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ بھی ان کی دست برد سے اس طرح محفوظ نہیں ہے۔

ان کے کرتوتوں نے تعلیم بھی اس شہر سے چھین لی ہے۔یہاں کا ہر باسی برباد ہو رہا ہے اور سونے پہ سہاگہ والدین بھی معصوم بچوں کو جو کھلونے کو کھیلنے کے لئے خرید کر دیتے ہیں اُن میں اولیت پلاسٹک کی گن یا کلاشن کوف کو حاصل ہوتی ہے۔اَن جانے میںشرفا بھی معصوموں کے ذہنی بگاڑ کا تو ذریعہ بن رہے ہیں!!!کراچی کے ظالمان طالبان کے خلاف تو آسمان سر پر اٹھائے ہوے ہیں۔مگر گذشتہ صرف پانچ چھ سال کاکراچی کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں طالبان سے زیادہ تو لوگ کراچی کے ظالمان کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔کراچی کا کونسا فرد ہے جس کو کراچی کے ظالمان نے لوٹا نہیںکسی کے گھر میں دن دہاڑے گھس کر گھر کو لوٹنے کے ساتھ لاشیں بھی گرانے میں دیر نہیں کی ۔کسی کی کار چھننے کے ساتھ اُس کی لاش اُس کے ورثہ کو دیدی کسی سے بائیک کسی سے موبائل چھن کر لاشیں اُن کے ورثا کا مقدر بنا دی گئیںکسی کو اتنی فرست ہی نہیں ہے کہ کراچی کے لوگوں کا درد بانٹے۔

ایم این ایز اور ایم پی ایز کو تو بقول جمشید دستی شراب اورکباب لہو ولعب سے ہی فرست کہاں کہ عوام کے مسائل پر توجہ دیں۔اسٹیٹس کو کے عادی حکمران اور سیاست دانوں کی بلا سے لوگ دہشت گردی، قتل و غارتگری، لوٹ مار اور ڈکیتیوں کا شکار ہوتے ہیں تو ہواکریں۔ ان کی روزی روٹی میں کوئی رخنہ اندازی نہ کرے بس…. چند ایک سر پھرے اسمبلیوں میں اگر کوئی آواز اٹھاتے ہیں تو وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق دب کے رہ جاتی ہے۔

جب حکمرانوں کے کانوں میں سیسہ بھر ہو تولوگ حکمِ ربی کے ہی صرف منتظررہتے ہیں۔ورنہ ہماری تباہی میں ان لوگوں نے تو دلچسپی لینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔کراچی میں تو لوگوں کا یہ حال ہے کہ صبح اٹھ کر روزی روٹی کمانے کیلئے نکلنے والے کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ وہ خیریت سے شام کو اپنے پریوار میں لوٹے گابھی کہ نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے وعدے کے مطابق چوروں ڈاکووں ٹارگیٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے خلاف گذشتہ چھ ماہ قبل سے آپریشن لائونج کیا ہوا ہے۔ جس کا سربراہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بنادیا تھا۔جس دن سے آپریشن شروع ہوا ہے سندھ کی ایک جماعت تو بار بار مارشل لاء کی دھائی دے رہی ہے دوسری جانب وہ مسلسل یہ بھی کہہ رہی ہے کہ آپریشن اُ س کے خلاف کیا کیاجا رہا۔حالانکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی آپریشن ابھی تک دیگر بستیوں میں تو شروع ہی نہیں ہوا ہے۔

Rangers Operation

Rangers Operation

جہاں ابھی تک پولس اور رینجرز نہیں ہر گلی کے نکڑ پر لگائے گئے بیریر ہنوز محفوظ ہیں۔ زیادہ تر آپریشن کی باز گشت پٹھانوں اور بلوچوں کے ایراز کی سنائی دے رہی ہے۔گویا طالبان اور لیاری کے بھتہ خوروں کے خلاف تو آپریشن پوری آب و تاب سے جاری ہے، اور جاری رہنا بھی چاہئے۔ مگر کراچی کے ظالمان سے بھی آپریشن مشینری کو صرفِ نظر نہیں کرنی چاہئے۔ہمار اکہنا یہ ہے کہ کراچی میں جو بھی ظلم و زیادتی کا پرچم لے کر اٹھے اُسے اٹھنے سے پہلے ہی اداروں کو جا دبوچنا چا ہیئے ۔یہ ظالمان اپنے لوگوںکو بچانے کیلئے کراچی میںقتل و غارت گری کا سارا الزام طالبان کے سر تھوپنے پرلگے ہوے ہیں۔جس کو سچ ثابت کرنے پر انہوں نے دن رات ایک کئے ہوے ہیں۔فوج کو مارشل لاء لگانے کی بھی بار بار دعوت ان کی لیڈر شپ کی طرف سے دی جارہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔

کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف گذشتہ چھ ما ہ سے پولس اور رینجرز کا ٹارگیٹیڈآپریشن جاری ہے۔مگر اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ کراچی میں ڈاکو راج دو ماہ سلو رہنے کے بعد پھر تیز ہوگیا۔ان کی وارداتوں میں ایک مرتبہ پھر شدت آگئی ہے۔بینکوں ،گھروں، دوکانوں دفتروںگلی کوچوں اور بازاروں میں وارداتوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میںہی نہیں آرہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پولس رینجرز اور خفیہ ادارے مسلح افراد کی غیر قانونی سر گرمیوں کو روکنے کی بالکل اہلیت کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح سے ناکامی کا شکار ہیں۔ پولس میںچند آفیسرز کے علاوہ بقیہ پولس ولے تو مستقبل کی شہادتوں سے خوفذدہ یقینی طور پر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پولس کو اگر 15 پر کال کی جائے تو پولس وین شاہانہ چال چل کر دو تین گھنٹوں سے پہلے جائے واردات پر پہنچی ہی نہیں ہے۔اس سلسلے میں حکومت نے پولس اور رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کر بھاری بجٹ کے ساتھ اس آپریشن کو 4 ستمبر2013 کوشروع تو کرا دیا۔ مگر ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ کی شائد اس آپریشن میں بعض بڑوں کی دلی وِل نہیں ہے۔ 10 ہزار ملزمان کی گرفتاریوں کے دعووں کے باوجودآپریشن کی کامیابی سے زیادہ ناکامی کی دھند میں اٹی دکھائی دیتی ہے۔

کراچی میں ہر روز ایک سے ایک دل دھلا دینے والی وادات ہو رہی ہے ابھی ایک ہفتہ قبل الالصبح سخی حسن قبرستان کے سامنے کی گلی میں ایک نوجوان محمد عارف ولد محمد یونس کو جو گھر سے دفتر جانے کیلئے ناشتے سے قبل اپنی گاڑی میں سی این جی بھروکر لوٹا ہیتھا کہ گاڑی دروازے پر چھوڑ کر جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہونے لگاموٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اس سے موبائیل اور نقدی چھین لی تو ان میں سے ایک کو اُس نے شناخت کر لیا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جو اکثر تیسری گلی کے کانر پر بیٹھنے والے جتھے میں آتا رہتا تھا۔اس کو گھر میں داخل ہونے سے پہلے دہشت گردوں آواز دے کر باہر بلا لیا اور اس پر فائر کیا جس سے وہ دہشت زدہ ہو کر زمین پر گر گیا،اسی اثنا میں اس کی ولدہ بھی فائر کی آواز سن کردروازے پر آگئیں، اور ان قاتلوں کی منت سماجت کرتی رہیں کہ تمیں جو کچھ چاہئے گھر سے لیجائو مگر میرے بچے کو مت مارو …ان ظالموں نے آئو دیکھا نہ تائو نوجوا ن محمدعارف پر دوبارہ فائر کھولدیا اور دکھیاری ماں کا لخت جگر، جو دو ننھی بیٹیوں کا باپ بھی تھا کو اس کی ماں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔جس نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔مگران ظالمان کا تو کچھ نہ گیا ایک رستا بستا گھر تباہ ہو گیا۔دو معصوم بچیوں کا مستقبل اور ایک جوان بیوی کا سہاراان سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا۔

جیو ٹی وی کے ولی بابر کے قتل سے کونسا پاکستانی شہری ہے جو واقف نہیں ہے یہ سب کے علم میں ہے کہ ولی خان بابر کے قاتل کون تھے۔بلکہ مشہور اینکر پرسن حامد میر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ولی بابر کو ایم کیو ایم نے مرویا تھا۔ اور ولی بابر کے قاتلوں کو بچانے کیلئے ایم کیو ایم کے ایک ایم پی اے دن رات کوششیں کر رہے تھے …. اس کو اتفاق ہی کہئے کہ 13 ،جنوری 2013 کو لالو کھیت تھانے کے سمنے ٹریفک جام کے دوران دن دہاڑے ہزاروں لوگوں کی موجود میں اس صحافی کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ولی بابر کے پکڑے جانے والے قاتلوں کی نا صرف شناخت ہوگئی۔ بلکہ ان میں سے اکثر تو پکڑے بھی گئے ہیں مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کے جن پولس والوں نے قاتلوں کو پکڑا ا ور جن لوگوں نے شناخت کیا ان سب کو چن چن کر قتل کرا دیا گیا۔حتیٰ کہ ولی بابر کے وکیل نعمت علی رندھاوا کوبھی دھمکیاں دی گئیں کہ وہ مقدمے سے الگ ہوجائیںورنہ اچھا نا ہوگا ۔ جب وہ وکالت کرنے سے نہیں رکے تو انہیں بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دیا گیا۔مگر ولی بابر کے خاندان کے لوگ ثابت قدمی سے مقدمے کی پیروی کرتے رہے اور آج موحہ یکم مارچ 2014 کو عدالت نے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا اعلان کرتے ہوے چھ مجرموں میں سے دو مفرور مجرموں کو پھانسی اور چار کو عمر قید کاحکم سنا کر حق کو کامیابی سے ہم کنار کر دیااور ساتویں ملزم کو عدم ثبوت کی بنا پربری کر دیا گیا۔

Karachi Killing

Karachi Killing

آج ہر پاکستانی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کراچی میں ڈاکو راج کب ختم ہوگا؟؟؟ ختم ہوگا بھی کہ نہیں !!!یا کراچی کے لوگوں کو یوں ہی سسک سسک کر مرنے کے لئے قاتلوں لٹیروں ڈاکووں بھتہ مافیہ اور ٹار گیٹ کلرز کے رحم و کرم پر چھوڑ کرظلم کے میدان میں بے یارو مدد گار چھوڑ کر حکمران اور ان لوگوں کے منتخب کردہ ایم این ایز اورایم پی ایز ان کے ووٹ کی طاقت سے عیاشیاںہی کرتے رہیں ؟ خدارا کراچی کا امن اس کو واپس دیدو!کراچی کے لوگوں کا اور امتحان مت لو۔

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com