سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جا ؤ گے علامہ اقبال کی اس شعر سے مراد ہے کہ اگرہم مسلمانوں کی الحمد و للہ اپنی تہذیت و تمدن ہے، اپنی نظام حیات ہے اپنی نظام حکومت ہے، اپنی نظام کاروبا ر ہے اور نظام ِ عبادت ہے اگر ہم اپنی نظام کو نظر انداز کر کے یہودیوں و انگریزوں کی نظام کی راغب ہو کر اُن کی پیروی کریں گے تو ہم ڈوب جائیں گے۔ جیسے آج ہم پاکستانی قوم ڈوب چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں وہ چیزیں عام ہیں جن کی ممانت اسلام اور ہماری اخلاقی معاشرے نے بھی کی ہے۔ ایسے اعمال جو انسان کی یر غمال بناتی ہیں معاشرے میں تبائی و بے حیائی پھیلاتی ہیں وہ حکومت کی سر پر ستی میں نہ سہی مگر نظر میں ہوتے ہیں۔ آجکل ہماری اپنی نظام ِ حیات، اپنی نظام حکومت ،اپنی نظام کاروبا ر، اور نظام ِعبادت میں مغرب کی گہرائی پائی جاتی ہے۔
یہ تو عام بات ہے کہ بعض سیاست ایسے غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہیں جس کی اسلام، پاکستان کی آئین اور ہمارے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شراب پاکستان میں کھلم کھلا استعما ل ہوتی ہے۔ عوام، جاگیر دار اور امیر طبقہ اپنی جگہ اگر پاکستان کی سیاست دانوں، افسروں اور سرکاری ملازمین کی شراب نوشی، چرس نوشی اور دیگر منشیات کی میڈیکل کرائی جائے تو میں سمجھتا ہوں بڑی تعداد میں لوگ اس زمرے میںآئیںگے۔ بات اصل یہ نہیں کہ یہ لوگ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ بلکہ بات یہ بنتی ہے ایسے چیزوں کو پاکستان جیسے اسلامی ریاست میں کیوں اجازت نامہ ملتی ہے۔ شراب خانوں، جووا کے اڈوں کو اجازت نامہ ملتی ہے۔ فحاشی پھیلانے والی میڈیا کے لیے کیوں کوئی حدود بندی نہیں؟ اگر شراب، فحاشی، جووا جیسے ناپاک سر گرمیوں کو ختم کرنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ ان کو مکمل کالعدم قرار دی جائے اور تمام اڈے بند کروائے جائیں تب ہی کچھ بہتری کی بات بن سکتی ہے و دیگر صورت صرف اور صرف وقت گزرتا ہی جائیگا۔
گزشتہ روز جمشید دستی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اُن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں مجرے کرائے جاتے ہیں، لڑکیاں، چرس اور شراب لائی جاتی ہیں اور ہر سال چار سے پانچ کروڑ روپے کی شراب پی جاتی ہے۔ اور دشتی نے خبردار بھی کیا ہے کہ اس کے پاس ثبوت کے طور پر مختلف ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اور جتنے بھی پارلیمنٹرینز موجود ہیں خواتین و مرد تمام کے تما کی میڈیکل ٹیسٹ کروائی جائے تو دودھ کا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔ نبیل گبول ایم کیو ایم کے رہنماء نے بھی اس کی بات کو درست مانتے ہوئے کہا کہ اس کی باتیں روز کا م معمول بن چکی ہیں۔
قومی اسمبلی کی اسپیکر نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جمشید دستی پارلیمنٹ پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزمات ثابت نہ کر سکے تو ان کیخلاف کاروائی کا فیصلہ ایوان ہی کرے گا۔ بعدازاں جمشید دستی کے کمرے کے باہر کسی نے شراب کی خالی بوتل رکھ دی جسے جمشید دستی نے اپنے خلاف پروپگنڈا قرار دیا ۔وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی نے جمشید دستی کو پارلیمنٹ کا ”وینا ملک” قراد دیتے ہوئے کہا کہجمشید دستی کا زہنی توازن بھی درست نہیں، وہ ارکان پارلیمنٹ پر بے بنیاد اور گھٹیا الزام اپنی زہنی نا پختگی کا ثبوت دیا، وہ ایسا کر کے سستی شہرت حاصل کرنا چایتے ہیں، اگر کوئی صداقت ہوئی تو ایکشن لیا جائے گا۔
Jamshed Dasti
بحرحال صداقت ہو یا نہ ہو مگر عام عوام کی جمشید دستی کی الزامات درست لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں 98 فیصد لوگ جمشید دستی کی اس الزام کو درست مناتے ہیں اور جمشید دستی کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ جمشید دستی درست یا غلط یہ الگ بات ہے ویسے اگر صداقت حاصل کرنی ہے تو پاکستان سپریم کورٹ ہی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے۔ جمشید دستی کو سپریم کورٹ میں درخواست دینی ہو گی کہ تمام ارکان اسمبلی اور تمام گزیٹیڈ بیورو کریٹ افسران کی میڈیکل کروائی جائے جس شراب پی ہے تو ایسے کم از کم عہدے سے ہمیشہ کے لیے ہٹایا جائے اور تمام بینی فٹ سے خارج کی جائے تاکہ آئندہ کسی بھی بیورو کریٹ یا سیاست دان کو یہ جرت نہ ہو کہ وہ شراب نوشی اور فحاشی جیسے سر گرمیوں میں ملوث ہوں۔
اسلام رواداری، آسانی اور سہولت کا دین ہے اور اس کے ساتھ عدل و اکرام اور دیگر اسلامی آداب کا دین بھی ہے لیکن جس شخص کی عزت افزائی کی جارہی ہواگر وہ عالیٰ افسر یا عالیٰ شخصیت ہو یا وزیر و مشیر ہو تو لوگ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ان کی خوشامد حاصل کرنے کی لائن میں لگ جاتے ہیں۔ تو ان کی خدمت میں حرام کھلانا پلانا اور شراب نوشی کروانا، رات بھر کے لیے نا پاک عورتیں پیش کرنا، مجرہ دکھان اور ان کی تمام ناجائز اور غیر اخلاقی خواہشات پوری کرنا ایک غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ اکثر ہوتا ہے کوئی اپنی نوکری کی لالچ میں، کوئی اپنی کام کی لالچ میں اور کوئی اپنی ناجائز دستاویز ات کی آڑ میں ناجائز کام کی لالچ میں یہ عمل ہوتا ہے۔ کسی کو نوکری کی ضرورت ہوتی تو وہ اعلیٰ حکام کے لیے اس دعوت و طام کی بندو بست کرتا ہے ساتھ ساتھ شراب و کباب کی بھی بندوبست ہوتی ہے۔ اسی طرح دونوں کی خواہشات بھی پوری ہو جاتی ہیں ۔اسی طرح معاشرہ میں رشوت اور کرپشن جنم لیتی ہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کر گس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور ہے الفاظ و معافی میں تقاوت نہیں لیکن ملا کی ازاں او ر، مجاہد کی ازاں اور
خبردار: اے میرے پیارے حکمرانوں، سیاست دانوں، جاگیر داروں، افسروں، امیروں، صحافیوں، وڈھیروں اور دولت مندوں شراب نوشی انسانی کا سب سے بڑا سبب بن رہی ہے۔شراب نوشی جسم کے ریشے تباہ، دماغ متاثر، جگر بے کار اور پھٹے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ شراب ٹانگوں اور بازوؤں کی نسوں پر براہ راست اثر کرتی ہے۔ یہ خون کے سرخ خلیات کی جانی دشمن ہے اس کے علاوہ یہ سانس اور خوراک کی نالیوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔مستقبل شراب نوشی نرخرہ کے کینسر کا خطر ہ بڑھ جاتا ہے۔ شراب پینے والے اس واقعہ سے عبرت پکڑیں کہ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں اہل شام میں سے چند لوگوں نے شراب پی اور کہنے لگے یہ ہمارے لے حلال ہے۔ اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ایسے لوگ جو ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام بھی کرتے ہوں، اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھاتے پیتے ہوں’۔
ان دنوں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں کے حاکم تھے۔ انہوں نے یہ تمام قصہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ آپ نے جواب دیا کہ انہیں میرے پاس بھیج دو۔ حاضر کیے گئے تو آپ نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مشورہ کے لیے جمع کیا۔ تمام نے مشورہ دیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے زمہ جھوٹ باندھا ہے اور شریعت میں ناحق مداخلت کی لہذا انہیں قتل کر دیا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابھی خاموش تھے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا علی! آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا میری رائے یہ ہے کہ انہیں توبہ کو کہا جائے۔ اگر انکار کریں تو قتل کر دیا جائے اور توبہ کر لیں تو انہیں اسی اسی درے سزا دی جائے۔ چنانچہ توبہ کے مطالبہ پر انہوں نے توبہ کر لی اور انہیں اسی اسی درے سزا دی گئی۔ بحرحال شراب کسی دور جائز تھا مگر اس وقت استعما ل کرنے والے کے لیے کوئی گنا ہ نہیں مگر اب شراب حرام ہے تو اب بالکل جائز نہیں۔
سیدنا ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ہر نشہ لانے والی چیز خمر( شراب ) ہے اور ہر خمر ( شراب ) حرام ہے۔ سیدنا جاب سے روایت ہے کہ ایک شخص حبشان سے آیا اور حبشان یمن میں ایک شہر کا نا م ہے) اس نے یمن کی اس شراب کے بارے میں پوچھا جو اس کے ملک میں پی جاتی تھی اور وہ مکئی سے بنائی جاتی تھی اور اس کو مزر کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس میں نشہ ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز نشہ کرے وہ حرام ہے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ جو نشہ پیئے اس کو ( آخرت میں ) طینتہ الخبال پلائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طینتہ الخبال کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ یہ جہنمیوں کا پسینہ ہے یا جسم سے نکلنے والا خون اور پیپ۔
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان صرف اور صرف اسلامی معاشرے کے لیے حاصل کیا گیا ہے لیکن موجودہ معاشرے میں اسلامی بہت دور رکھی گئی ہے۔ اسلامی نظام تو 1973ء کی آئین میں بہت نظر آتے ہیں مگر عمل در آمد اس لیے نہیںہے کہ نافذ کرنے اور کرانے والے دونوں طبقہ بھی اس پر خود عمل پیراں نہیں ہے۔ جمشید دستی کی بات درست ہے پھر بھی سپریم کورٹ کو سنجیدگی سے تمام سیاست دانوں ، بیورو کریٹس ، قانون نافذ کرنے والے افسران و اہلکار سمیت صحافیوں کی بھی میڈیکل ٹیسٹ ہونے چاہیے جو شراب ، فحاشی ، منشیات کی استعمال میں ملوث پائی جائے تو کم از کم ایسے لوگوں کو پاکستان کی اقتدار زیب نہیں دیتی۔
حضرت امام حسین اور یزید کے درمیان کربلا بھی اس وجہ سے ہوئی کہ یزید اقتدار میں آنا چا ہتا تھا اور یزید شرابی و عیاش پرست تھا ۔اسی لیے حضرت امام حسین اور کے سچے مسلمان ساتھیوں نے یزید کی حاکمیت سے نکار کر کے شہادت نوش فرمائی ہے۔ یہاں پر بھی بات تو وہی ہے مگر افسوس حضرت امام حسین جیسے مفکروں و مومنوں کی کمی ہے کہ شراب نوش، فحاش پرست اور عیاش پرست لوگ ہی حاکمیت کر رہے ہیں ایسی لیے آج پاکستان زندہ جل رہا ہے۔ کوئی ہے شیشہ و شراب میں مست کوئی ہے لذت شباب میں مست مبتلا ہیں سبھی کہیں نہ کہیں میں بھی ہوں اپنے خواب میں مست