میگا کشکول

PML N

PML N

پیپلز پارٹی حکومت کے گذرے پچھلے پانچ سال بد تھے تو مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے گذرے ہوئے چند ماہ بد تر ہیں ان کی ناکام اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے ترقی و خوشحالی کی منزل قریب آنے کی بجائے کوسوں میل دور چلی گئی ہے۔

مئی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے عوام کوزرعی، صنعتی اور معاشی انقلاب کے جوسہانے سپنے دکھائے تھے جو اب ڈرائونے خواب بن گئے ہیں، حکومت نے اپنے منشور میں بجٹ خسارا چار فیصد تک لانے، ٹیکس جی ڈی پی کے تناسب کو 9 فیصد سے بڑھا کر 2018ء تک 15 فیصد کرنے، افراط زر کی شرح 8 یا 9 فیصد تک لانے، سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے درمیان تناسب کو 20 فیصد تک لانے، صنعتی پیداوار میں 7 تا8 فیصد بڑھوتری کرنے، تمام برآمدات کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے جیسے بے شمار وعدے کئے تھے مگر حکومت آٹھ ماہ میں کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کر سکی، ہمیشہ کیلئے کشکول توڑنے دینے اور آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیریں کاٹ دینے کے دعوے کرنے والوں نے میگا سائز کا کشکول پکڑ لیا ہے اور اب وزیر اعظم کی طرف سے غربت اور مہنگائی کو بھگا دینے کی باتیں مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہیں۔

عوام کی یادداشت کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پہلے تقریباً چھ ماہ (دسمبر 2013ء کے آخر تک ) کی کارکردگی کاجائزہ پیش کر تا ہوںکہ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں بار بار اضافہ کیا ۔ جون 2013ء میں 2روپے فی لیٹر ،جولائی میں 5 روپے فی لیٹر ،اگست میں 3روپے فی لیٹر، ستمبر میں 10روپے فی لیٹر، اکتوبر میں 4 روپے فی لیٹر اور نومبر 2013ء میں 3روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔ دسمبر 2013ء تک تقریباً 30روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان کھڑا اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔ جس میں دال مونگ کی قیمتوں میں 35 فیصد، گرم مصالحوں میں 38 فیصد،آٹا کی قیمت میں 13فیصد، خوردنی تیل، صابن اور دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں 17 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔مجموعی طور پر 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے کے بعد گذشتہ دس سالوں کے مقابلہ میں دودھ چائے، مٹی کا تیل، بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، کھادوں، سیمنٹ، فرنس آئل اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ 40 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی۔

Petroleum Products

Petroleum Products

اس مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک امریکی ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی 91 روپے لانے کا دعویٰ کیا گیا لیکن یہ گرتے گرتے پاکستانی 107 روپے تک جا پہنچا۔ جس سے قرضوں کی رقوم میں بھی اضافہ ہوا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب کے قومی اسمبلی میں اپنے بیان کے مطابق اُن کی حکومت آنے کے بعد جون سے اکتوبر 2013ء تک کے پانچ ماہ کے دوران بیرونی قرضوں میں ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپیہ کی قدر کم ہونے کی وجہ سے 403بلین روپے کااضافہ ہوا۔ نومبر اور دسمبر کے اعداد و شمار کو لیاجائے تو یہ اضافہ 500 بلین روپے سے زیادہ ہوگا۔

کشکول توڑنے اور ایڈ(مدد ) نہیں ٹریڈ (تجارت ) کانعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے 6.7ارب ڈالر کاقرضہ آئی ایم ایف سے نہایت کڑی شرائط پر لیا۔ یہ رقم قرض کی ادائیگی میں صرف ہونی ہے کیونکہ اس مالی سال میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو 8 کھرب روپے اداکرنے ہیں جوکہ ملکی جی ڈی پی (کل 26 کھرب روپے ) کا 30 فیصد ہے۔ پاکستان پوری دنیا میں اُن 27 قرض دہندہ ملکوں میں سے سرفہرست ہے جسے رواں سال 2013-14 میں جی ڈی پی کا 30 فیصد قرض کی ادائیگی میں صرف کرنا ہے۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب کے قومی اسمبلی میں اپنے بیان کے مطابق 32 . 85 ملین ڈالر کا قرض اسلامی ترقیاتی بینک سے 2.7فیصد سود پر اور 100 ملین ڈالر کاقرض 2فیصد شرح سودپر سعودی عرب سے منظور کروایا ہے جبکہ اس کے علاوہ 1.70ارب ڈالر کاقرضہ عالمی بینک سے منظورکروایا ہے جس میں سے 70 کروڑ ڈالر وصول ہوچکے ہیں۔ 40 کروڑ ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل ہورہے ہیں۔ بنکوں کا کنسورشیم 50 کروڑ ، 50 لاکھ ڈالر دے رہاہے وزیرخزانہ کے مطابق یورو بانڈ کے ذریعہ ایک ارب ڈالر ملیں گے اور اس طرح سے وزیرخزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر اگلے سال تک 15ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے ۔ بیرونی قرضہ 76بلین ڈالر ہوگیا ہے۔باہر سے قرض پہ قرض لیے جارہے ہیں اور اندرون ملک 6کھرب 72ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کے مطابق ان میں سے 4کھرب 66ارب روپے کے نوٹ تبادلہ میں چھاپے گئے اور 2کھرب 6ارب روپے کے خالص نئے نوٹ چھاپے گئے ہیں حکومت نے اس قلیل عرصہ میں 750ارب روپے سٹیٹ بینک سے قرض لیا ہے۔

اگروزیر اعظم میاں نواز شریف اور انکی ٹیم چاہتی ہے کہ تاریخ میں انکے نام سنہری حروف سے لکھے جائیں تو وہ فوری طور پر محدود آمدن رکھنے والے کروڑوں شہریوں کی معاشی زبوں حالی کا ازالہ کرنے اور ملکی معیشت کو ترقی دینے کیلئے فوری طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی منڈی کی سطح پر لا ئیں،آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرکے بجلی و گیس کی چوری اور لائن لاسز پر سختی سے کنٹرول کیا جائے ۔معیشت کو دستاویزی شکل میں لانے کیلئے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس میں کمی کی جائے اور آمدن و اخراجات کے فرق کو ختم کرکے دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور سابقہ ادوار میں کی گئی نجکاری کا آزادانہ (Independent) اداروں سے تجزیہ کروایاجائے کہ وہ اپنے اعلان شدہ مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی،ان میں کتنی شفافیت تھی ،ملک و قوم کو کیا نقصان پہنچا اور ادارے خریدنے والوں نے معمولی دام دے کر تھوڑ ے سے عرصے میں کتنی بڑی بزنس ایمپائرز بنالیں ۔ ان نتائج کو پوری قوم کے سامنے رکھا جائے اور اس سے پہلے جن 34 اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بنایا گیاہے۔ اس پرعمل درآمد روکاجائے۔

جلد بازی میں اٹھائے گئے اس قدم سے نہ کہ صرف قیمتی، قومی اثاثے، چند مخصوص ہاتھوں میں چلے جائیں گے بلکہ لاکھوں بے روزگار بھی ہوں گے اور چند درجن لوگ مزید کھرب پتی بن جائیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر 03466444144