لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

History

History

تاریخ بتاتی ہے قدیم ادوار میں غلاموں کی منڈی لگا کرتی تھی خریدار برہنہ ، نیم برہنہ ”سودا”دیکھ کر مال کی قدرو قیمت کا اندازہ لگاتے ان کی جانب فحش جملے اچھالتے۔ خوبصورت لونڈے، متناسب بدن لڑکیاں، جفا کش مرد اور خواجہ سراکی قیمت اچھی مل جایا کرتی تھی یونانی تہذیب سے لیکر مصرکے بازار اور دور ِ حاضر تک یہ منڈیاں کسی نہ کسی صورت ”آباد”ہیں خوبصورت لونڈوں اور متناسب بدن لڑکیوں کی خریداری لوگ اپنی جنسی تسکین۔۔ جفا کش مرد مزدوری کیلئے اور خواجہ سرا گھریلو کام کاج کیلئے کرتے تھے۔

مذہب اسلام نے انسانوں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دینے ہوئے اسے انتہائی مکروہ فعل گردانا ہے خود نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور متعدد صحابہ کرام نے درجنوں غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرکے انہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق عطا فرمایا خلیفة المسلین حضرت عمر فاروق کا قول ہے ” اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیا انہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں”۔۔۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے انسانوں کی خرید وفروخت کا شمار دنیا کے اولین کاروبار میں کیا جا سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار بڑھتا، پھلتا اور پھولتا گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ گذشتہ دنوں ایک چونکا دینے والی خبر پڑھی” سندھ میں عورتوں کی منڈی لگتی ہے” یعنی پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں بھی مصر کا بازار سجایا جاتا ہے۔

خبرکے مطابق” پنجاب میں گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں 3 سے 5 لاکھ میں فروخت کر دی جاتی ہیں اس وقت داتا دربار لاہور میں 3 بڑے گینگ سر گرم ِ عمل ہیں جن میں کچھ پولیس اہلکار اور متعدد عورتیں بھی شامل ہیں درجنوں لڑکیاں باقاعدہ منڈی لگا کر بیچ دی گئیں یہ سنسی خیز انکشافات رحیم یار خان سے برآمد ہونے والی 2سگی بہنوں نے کئے ہیں دونوں لڑکیوں کو CIA نے ڈھونڈھ نکالا تھاپی سی آئی اے چوہدری عمر ورک ،D I G اپریشن رانا عبدالجباراس گروہ کو تلاش کرنے کیلئے چھاپے مار رہے ہیں جو اس مکروہ کاروبار میں مصروف ہیں مغوی بہ نوں مدیحہ اور کرن نے بتایا ہے کہ انہیں داتا دربار سے اغوا کرکے رحیم یار خان فروخت کر دیا گیا CIA پولیس نے انہیں چار سال بعد بازیاب کروایا ہے 2010ء میں تھانہ لوئر مال لاہور میں دونوں بہنوں کے اغواء کا پرچہ درج ہوا بردہ فروشوں کے 3 بڑے گروہوں کو مبینہ طور پر کئی پولیس اہلکاروں کی سر پرستی حاصل ہے یہ لوگ گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں۔ اور داتا دربار سلام کیلئے آنے والی بھولی بھالی نو عمر بچیوں کو اپنی ساتھی عورتوںکی مدد سے ورغلا کر انہیں بیٹی بنالیتے ہیں اور قریبی کرائے کے مکانوں میں لے جاتے ہیں پھر لڑکیوں کو بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔

Sindh

Sindh

موقعہ پا کر صادق آباد، رحیم یار خان یا قریبی کسی گوٹھ میں لے جاتے ہیں برآمد ہونے والی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے کسی علاقہ میں مغوی لڑکیوں کی باقاعدہ منڈی لگائی جاتی ہے یہ بات وہاں کی پولیس کو بھی معلوم ہے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کو 3 سے 5 لاکھ میں خرید کر اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور ان کو عیاشی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بدنصیب بہنوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھاگنے کی کوشش میں کئی لڑکیاں قتل بھی کی جا چکی ہیں”۔ایسے واقعات ہمارے معاشرہ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہیں لیکن اس کے باوجودآئے روز ایسے انکشافات ہوتے رہتے ہیں بے حسی یہ ہے کہ حکومتی ایجنسیوں کے سر سے جوں تک نہیں رینگتی دراصل یہ سی معاملات لاقانونیت کے باعث رونما ہوتے ہیں جس ملک میں قانون کو موم کی ناک بنا دیا جائے وہاںایک شخص ایک دو کلاشنکوفوں کے بل بوتے پر پورے اسلام آباد کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ کچھ قبل ایسی ہی ایک لرزہ خیز رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پا کستان کے متعدد علاقوں میں ایسی ”منڈیاں”لگائی جاتی ہیں اور قانون اپنی” فیس”لے کر سکون سے خراٹے مارت ارہتا ہے۔

جب خریداروں کا دل کسی” کھلونے ” سے بھر جاتا ہے تو وہ اپنے کسی دوست کو تحفے میں دیدیتا ہے اور ایسے حسین تحفوں کا تبادلہ ہوتا رہتاہے۔ جب ہم یہ پڑھتے اور سنتے ہیں حجاچ بن یوسف ایک عورت کی فریاد پر سندھ پر چڑھائی کا حکم دے دیتا ہے۔۔ تو آج کے حالات، اداروں کی بے بسی اور بے حسی دیکھ کر دل کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہماری روایات ہیں۔ یہ جذبہ اتنی غیرت۔۔ اتنی جرأت کہاں گئی؟ اسلام نے تو عورت کو جتنی عزت سے نوازا اس سے پہلے کسی مذہب نے اتنی توقیر نہیں دی لیکن پاکستان میں دن بہ دن اخلاقی اقدار ختم ہو تی جارہی ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟ اس میں پورا معاشرہ ذمہ دارہے ہر شخص، ہر مکتبہ ٔ فکر ہر ادارے کو اس کیلئے اپنا کردار فعال طریقے سے ادا کرنا ہوگا خاص طور پر حکومت کو چاہیے کہ قانون پر سختی سے عمل کروائے جب تک قانون سب سے ایک جیسا سلوک نہیں کرے گا قانون کی حکمرانی کا خواب پورا نہیںہو گا قانون کا خوف اور سزا کا ڈرہی معاشرے میں اطمینان کا سبب بن سکتا ہے ورنہ یہ سلسلہ دراز رہاتو ملک بھر سے معصوم بھولی بھالی لڑکیاں اغواء ہوتی رہیں گی دور دراز علاقوں میں انسانوں کی خرید و فروخت کیلئے منڈیاں لگتی رہیں گی اورایک وقت ایسا بھی آسکتاہے ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔ وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کیلئے کچھ تو ہاتھ پائوں مارنے چاہییں۔

ملک بھر میں اولیاء کرام کے مزارات ، شاپنگ مال ،ریلوے اسٹیشن، لاری اڈے اور دیگر پبلک مقامات پر گا ہے بگا ہے کمانڈو طرزکا ایکشن لیا جائے۔ سماج دشمن عناصر اور انسانیت کے دشمنوں کی سر کوبی کیلئے آخری حد تک جانا پڑے تو دریغ نہ کیا جائے بلکہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے تو ان مقامات کو واچ کرتا رہے اس کے ساتھ ساتھ تمام پبلک مقامات پر CCT کیمرے بھی لگائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیاانہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں”۔کا فلسفہ حکمرانوںکی سمجھ میں آگیا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانوںکی منڈیاں لگنا بندہو جائیں گی۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی