14 اگست 1947 کو انگریز برصغیر کو تقسیم کرکے دنیا کے نقشے پر پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں لایا۔ تقسیم کے وقت برصغیر میں 63 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک موجود تھا، جس میں سے 55 ہزارکلومیٹر پٹڑی بھارت اور 8ہزار کلومیٹر پٹڑی پاکستان کے حصہ میں آئی۔
بھارت نے ترقی کرتے ہوئے ریلوے پٹڑی کوایک لاکھ چودہ ہزار کلومیٹر تک وسعت دی جبکہ پاکستان بمشکل 11 ہزار کلومیٹرکی حد عبور کر سکا ہے۔ پاکستان کی ریلوے کی طرح بھارتی محکمہ ریلوے بھی 2004 میں معیشت کیلئے سفیدہاتھی کی حثییت اختیار کرچکا تھا۔ پھر 2004 میں سابقہ وزیراعلٰی لالوپرشادکو ریلوے کا وزیر بنایا گیا۔لالو پرشاد نے اپنی وزارت کو پروٹوکول اور کمائی کا ذرائع بنانے کی بجائے ریلوے کے ڈاکٹر کا کردار ادا کیا۔
ریلوے میں موجود تمام بیماریوں کونہ صرف خود تلاش کیا بلکہ اس کے علاج کیلئے اقدامات بھی کیے۔لالوپرشاد صبح گھر سے نکلتااور کسی بھی ٹرین میں سوار ہوجاتا اور اسے راستے میں جو بھی مسائل نظر آتے تھے وہ متعلقہ محکمے کو فورا ہدایات جاری کرتااور اس کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرواتا۔وہ سیکرٹری سے لیکر ریلوے کے آفسران تک سب سے میٹنگ / ملاقاتیں ریلوے اسٹیشن پرکرتا، اور مسافروںکے مسائل سنتا اور اسی وقت افسران کواصلاح کے احکامات بھی جاری کرتا۔لالوپرشاد نے قاعدہ بنادیا، ریلوے کا کوئی اہلکارہوائی سفر،بس و ویگنوں میں سفر نہیں کرسکتاوہ صرف ریل کے ذریعے سفر کریں گے۔اس نے مال گاڑیوں میں اضافہ کردیا اور ان کے کرائے بھی گھٹادئیے۔
ریلوے کی مال گاڑیوں کو ترجیح ملنے لگی اس سے مال برداری کا 90 فیصد حصہ ریلوے کو ملنے لگا، اور جلد ہی ریلوے کا خسارہ ختم ہوگیا۔ اس نے ٹرینوں کو وقت پرلانے اور لے جانے کیلئے عجیب تکنیک استعمال کی، اس نے ملک بھر کے تمام نوجوانوں کیلئے سکیم متعارف کی۔ اگرنوجوان جاب انٹرویو کیلئے جارہے ہیں تو کال لیٹر دکھائیں اور ٹرین میں مفت سفر کریں، اس سکیم سے روزانہ ہزاروں بے روزگار نوجوان ریلوے کو مفت میں استعمال کرنے لگے۔ ٹرینوں پر رش ہوگیا ان نوجوانوں میں ریلوے اہلکاروں کے بچے بھی شامل ہوتے تھے، اس وجہ سے اہلکار ٹرین کو لیٹ نہیں کرتے تھے۔مزید لالوپرشاد نے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی کینٹینوں سے چینی، پلاسٹک، دھات اور ڈسپوزیبل برتنوں کی جگہ صرف اور صرف مٹی کے برتن استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے۔
اس سے 25ہزار دیہات کا مقدر تبدیل ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے اردگردکمہاروں نے دھڑا دھڑمٹی کے برتن بنانا شروع کردیے۔ مٹی کے برتن کیونکہ جلد ٹوٹ جاتے ہیںچناچہ ان کی سپلائی لائن لمبی ہوتی گئی اور ریلوے کے اردگرد کے دیہات مٹی کے برتنوں کی منڈیاں بن گئی۔ لالوپرشاد نے ریلوے کی انشورنش بھی کرادی۔ اس نے انجنوں کی مرمت ،موبل آئل کی تبدیلی کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا۔ اس نے ریلوے کا عملہ بھی کم کردیا ان تمام عوامل کی بدولت آج بھارتی ریلوے روزانہ تقریبا82 کروڑ روپے کماکر دیتا ہے ۔ اس وقت بھارت میں روزانہ 14 ہزار سے زیادہ ٹرینیں چلتی ہیں۔
1790میں پہلی بار برطانیہ میں کانوں سے کوئلہ لانے کیلئے گھوڑا گاڑی استعمال کی جانے لگی ،جو لوہے کی پٹڑی پر چلتی تھی، پھر 1804 میں ایک انگریز انجینئر رچرڈٹرے دی تھک نے بھاپ سے چلنے والا انجن تیار کیا۔جو 20 ٹن تک وزن کھینچ سکتا تھا۔اس کے بعد جارج سٹیفن نے 1825ء میں 90 ٹن وزنی اسٹم انجن بنانے کا کامیاب تجربہ کیا،اس انجن کے کامیاب تجربہ کے بعدسٹاکٹن سے ڈار لنگٹن تک 38میل لمبی ریل کی پٹڑی بچھائی گئی،جس پر صرف مال گاڑیاں چلائی گئیں۔ 1830ء میںلیور پول سے مانچسٹرکوملانے والی ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔برطانیہ میں پہلی مسافر گاڑی اسی ریلوے لائن پر چلی۔ اس کے بعد ریاست ہائے متحدہ میں1833، بلجیم اور جرمنی میں1835، فرانس 1837، ہالینڈ اور اٹلی میں 1839 ء میں ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ برصغیر میں ریلوے کاآغاز 1845میں ہوا۔ شروع میں بمبئی، رانی گنج اور کلکتہ تک تین تجرباتی ریل گاڑیاں چلائی گئیں۔13مئی1861 کو کراچی سے کوٹری تک ریل گاڑی چلائی گئی، جس کی پٹڑی کی لمبائی 105میل تھی۔ 10 اپریل 1962ء کولاہور اور امرتسرکے درمیان پہلی گاڑی چلی۔1865ء میں ملتان کو لاہور سے ریلوے کے ذریعے ملایا گیا۔ 1889ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر پل تعمیر ہونے سے پنجاب اور سندھ کو ریل کے ذریعے ملایا گیا۔ پاکستان ریلوے کی عمر تقریبا 152سال ہوچکی ہے۔
1884 میں ڈبلیو پی اینڈ ریو نے اپنی کتاب ‘ انڈین ریلویز’ میں لکھا ہے کہ ریلوے کی آمد سے قبل برصغیر میں تاجر مال کی نقل و حرکت کیلئے بیل گاڑیوں کی مدد لیا کرتے تھے، یہ بیل گاڑیاں روزانہ 6سے8 میل کا دشوارگزار فاصلہ طے کرتی تھیں۔اکثر وبیشترمال کو بندر گاہوں تک پہنچنے میں ماہ وسال لگ جاتے تھے۔زمینداروں کو غلہ فروخت کیلئے دور درازعلاقوں تک انہیںبیل گاڑیوں کی مدد سے لے جانا پڑتا تھا ۔ خصوصا کپاس کی فروخت کیلئے کئی سو میل تک سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ پھر اگر دوران سفربارش ہوجاتی توگاڑیوں پر لدی روئی اتنی وزنی ہوجاتی کہ اکثربیل اپنے بوجھ تلے دب کرمرجایا کرتے۔ہندوستان کے راستوں پر مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچے اتنی کثرت سے پڑے ہوتے تھے کہ مسافروں کو راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا۔
1830 ء کے بعد سے دنیا بھر میں ریلوے کی اہمیت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ ریلوے کا سب سے اہم کردار پہلی جنگ عظیم 1914 تا 1918 ء کے درمیان رہا۔ 1990ء سے دنیا میں سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد نئے امکانات اور اندیشے پیدا ہونے لگے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ٹرینوں کی رفتار350کلومیٹر فی گھنٹہ کردی جو آجکل 450 کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں کے حوالے سے جاپان کا نام عالمی سطح پر سرفہرست ہے ، جس نے یکم اکتوبر1964 ء کو ہی دنیا کے پہلے ہائی اسپیڈ ریل وے نیٹ ورک کا آغاز کردیا تھا، جاپانیوں نے پہلے 170 میل فی گھنٹہ کی رفتار والا انجن بنایا اور2003ء میں تجرباتی سفر361 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کیا۔جبکہ چین کے پاس دنیا کا سب سے طویل ترین ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک ہے، جو 600 میل سے زائد طویل روٹس پر محیط ہے۔جس کا آغاز 2007 ء میں ہواتھا۔ہائی اسپیڈ ٹرینوں کی ٹیکنالوجی کا مرکز جرمنی ہے ، دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ” سیمنز” کا تعلق بھی اسی ملک سے ہے۔جبکہ اسپین کے پاس پورپ کا سب سے طویل ہائی اسپیڈ ریل ریکس ہے جو 3433 میل لمبائی پر محیط ہے۔اسپین میں کمرشل ٹرینوں کیلئے حد رفتار186 میل فی گھنٹہ ہے۔ پاکستان میں 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین چلانے کے دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں پاکستانی ٹرین 95کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔
قارئین حقیقت میںپاکستان ریلوے کا نظام ریاست کے اندر ریاست کے مترادف ہے۔ پاکستان ریلوے ایک ڈیپارٹمنٹ ہونے کے باجود اپنی پولیس، اپنے سکول، ریلوے کالونیاں ، ہسپتال اور عدالتیں رکھتا ہے۔ عدالتوں میں مجسٹریٹ عدالتی کارروائی انجام دیتے ہیں۔جبکہ مردان میں 251 ایکڑ رقبے پر ریلوے انجن بنانے کا اپنا کارخانہ ہے،جس میں جاپان کی اشتراک بھی شامل ہے۔ مگر کرپشن اور دہشت گردی کے دور میں ریلوے کو تباہ و برباد کرکے ملک کی معیشیت کیلئے ایٹم بم بنا دیا ہے۔ سابقہ وزیر ،مشیر صرف اور صرف مال کمانے میں مگن رہے اور ٹرین ایک ایک کرکے بند ہوتی گئی۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹر اور گڈز ٹرانسپورٹر نے عملہ سے ملی بھگت کرکے ٹرین کے آمدرفت کو مکمل طور پر ناکام کیا۔اکثر ٹرین و مال گاڑیاں 24چوبیس گھنٹے لیٹ ہوتی۔مسافر مجبورا مہنگے داموں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ استعمال کرنے لگے۔ سابقہ ادوار میں ٹرین کی بدحالی کا انداز اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کے50 سیشنوں کے دوران ارکان اسمبلی نے وفاقی وزارتوں میں سب سے زیادہ 568 سوالات وزارت ریلوے سے کیے تھے۔ جن میں سے 346 سوالات اس وقت کی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ نواز نے کیے، ان میں سے 43 سوال ریلوے ملازمین سے متعلق تھے، 24سوال حساب کتاب، 20 سوال زمینوں کے ناجائز قبضے اور 18 سوال مختلف روٹس کے متعلق تھے۔ وزارت ریلوے نے 491سوالات کے جوابات تو دیئے لیکن 65 سوالات کے جواب نہ دے سکے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹوٹل 78سوال ، مسلم لیگ (ق) نے 20 سوال، ANPنے 4سوال، متحدہ مجلس عمل نے 2سوال اور آزادممبران نے بھی2سوال کیے۔ قومی اسمبلی کے 44 ویں سیشن میں وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے تحریری طور پر ارکان کو بتایا کہ پاکستان ریلویز اس وقت 82.23 ارب کا مقروض ہے۔ان میں سے 42.23ارب روپے تو غیر ملکی قرضہ ہے جبکہ 20ارب روپے بینک دولت پاکستان کوادا کرنا ہے۔ 2009-10ء میںساڑھے سات کروڑ پاکستانیوں نے ریل گاڑیوں پر سفر کیا، جس سے پاکستان ریلوے کو 21ارب روپے کی آمدن ہوئی۔جبکہ 2011-12میںصرف اڑھائی کروڑپاکستانیوں نے سفر کیا اور 9 ارب روپے کی آمدن ہوئی۔
Pakistan Railways
ریلوے کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام نے 11 مئی کونہ صرف سابقہ وزیر ریلوے غلام بلور کو رد کیا بلکہ ANPاور PPPPکو بھی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور پاکستان میں تیسری مرتبہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت آگئی۔ بلور کے دور میں ٹرینوں کے اند ر اور ریلوے اسٹیشنوں پرمعیاری کھانا ملنا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، غیر معیاری کھانا اور 2نمبر کولڈ ڈرنکس ۔۔منرل واٹر کی فروخت ہوتی تھی، 10روپے والی چپس 15روپے میں، 15والی کولڈ ڈرنک اور چائے20روپے، بسکٹ کا پیکٹ 20روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ جبکہ ریلوے ٹکٹ خرید کرسفر کرنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ٹکٹ والوں کو سیٹ نہیں ملتی بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کا خاص پروٹوکو ل ملتا۔ہر ٹرین مسافروں سے بھری ہوتی مگر پھر بھی ریلوے خسارے میں تھا اور ٹکٹ چیکر اور آفسران عیش میں۔
پھر نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے ، انہوں نے نوجوان قیادت خواجہ سعد رفیق کو وزیر ریلوے بنا دیا۔ جنہوں نے گزشتہ دنوں اپنی 200 دن کی کارکردگی عرصہ 11 جون 2013 تا 31 دسمبر 2013 پیش کی،جس کے مطابق انہوں نے200 دنوں میں ریلوے سے 3 ارب43کروڑ49لاکھ روپے کی آمدن حاصل کی ہے ، ماہ جون میں انہوں نے 1ارب 49کروڑ کی آمدن حاصل کی، ماہ جولائی تا دسمبر ریلوے نے11 ارب38کروڑ کی آمدن حاصل کی۔ بیشک پاکستان میں کسی بھی محکمے میں آمدن میں اضافہ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پاکستان میں جمہوریت کا حصول۔مگر خواجہ سعد رفیق نے منصب سنبھالتے ہی مندرجہ ذیل اقدامات کئے، جس نے بے جان ریلوے میں جان ڈال دی ۔انہوں نے گڈز ٹرینوں کیلئے مختص لوکوموٹیوز کی تعداد 8سے بڑھ کر25 تک پہنچا دی، کراچی بندگاہ سے پہلے ایک مال گاڑی چلا کرتی تھی اب ان کی تعداد 3-5مال گاڑیاں چلتی ہیں ۔ مسافر گاڑیوں کے کرایہ میں پانچ بار کمی کی گئی ، مختلف روٹس پر7% سے لیکر 57%تک AC سلیپر، اے سی بزنس، اے سی سٹینڈرڈ اور اکانومی میں کمی کے نتیجے میں مسافروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ مسافر ٹرینوں کی پابندی اوقات بہتر کیے۔ 304مسافر کوچز19 ڈائنگ کارز، 1540 ویگنز، برقی سپلائی مہیا کرنے والے 25 پاور وینزاور31ٹرین لائینگ وینز مرمت کی گئیں۔ تیل کے ذخائر جو محض 2 دن تک محدود تھے ان کو بڑھا کربارہ دن تک لایا گیا ہے۔ 21 افسران پاکستان سے باہر طویل رخصت پر گئے ہوئے تھے ، ان میں سے 9افسر ان جاری کردہ ہدایات کے تحت واپس ڈیوٹی پر آچکے ہیں ، 4 مزید افسران جلد واپس ڈیوٹی پر آجائے گئے اور 8کے خلاف ایکشن لیاجارہاہے۔ریلوے بورڈ کی تنظیم نو کیلئے سمری وزیر اعظم کو ارسال کی گئی، اب جنرل مینجر کی صرف ایک پوسٹ ہوگئی اور غیر ضروری آسامیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔مسافر گاڑیوں میں مسافروں کی سہولت کیلئے وائی فائی ، موبائل چارجر،اٹینڈنٹ بزر اور ٹیلی ویژن وغیرہ مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں، مزید دوران سفرفراہم کیے جانے والے کھانے کا معیار بہتر بنانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
ڈائنگ کارزآپریٹ کرنے کیلئے FOOD CHAINS کے حامل کمپنیوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔سیکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے ریلوے پولیس کو آفیشلز ٹریننگ د ی جارہی ہے۔اورپولیس کیلئے 21ملین روپے کے نئے ہتھیار خریدنے کیلئے فنڈز جاری کئے گئے۔مسافروں کی سہولت کیلئے راولپنڈی، لاہور اور کراچی سٹی اسٹیشن پر حبیب بینک لمیٹڈکے تعاون سے ATM کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ اب مسافر گاڑیوں میں نماز کیلئے جگہ مختص کرنے کیلئے کوچز کے ڈیزائنوں میں تبدیلی کا عمل جاری کردیا گیا ہے۔کراچی بندگاہ سے لاہور ڈرائی پورٹ کیلئے کنٹینرسروس دوبارہ شروع کردی گئی ہے، جو دو سال سے بند تھی۔104 اسٹیشنوں پر بل بورڈاور اشتہارات آویزاں کرنے کیلئے پارٹیوں سے ٹینڈر وصول کرلئے گئے ہیں۔جون 2014تک آن لائن ٹکٹنگ کا نظام متعارف کروادیا جائے گا۔ گذشتہ دنوں 36ماہ بعد ہزاروں ٹن کوئلہ لیکر پاکستان ریلوے کی مال گاڑی کراچی سے ریلوے اسٹیشن فیصل آباد پہنچ گئی۔24 بوگیوں پر مشتمل اس مال گاڑی میں مختلف صنعتی اداروں و کول ڈیلرز کا کوئلہ کراچی سے فیصل آباد پہنچایا گیا ہے۔ تین سال قبل ریلوے انجنوں کی کمی کے باعث یہ مال گاڑیاں بند کردی گئی تھی۔
موجودہ حالات میں تو لگ رہا ہے کہ پاکستانی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی سابقہ بھارتی وزیر ریلوے لالوپرشادکی طرح حقیقی طور پر ڈیوٹی سرانجام دینے کا ارادہ کیا ہوا ہے، اور وہ دوبارہ پاکستانی ریلوے کو خسارے سے نکال کر ملک کے زرمبادلہ کمانے والا ادارہ بنا دے گئے۔ لیکن اس کا حقیقی اندازہ تو4سال بعد ہوگا، جب وزیر صاحب اپنے آخری دنوں میں ہونگئے۔ پاکستان کی تاریخ کے عمیق مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان آغاز میں تو اچھی کارگردگی سے کرتے ہیں مگر پھر خوشامدی ٹولے کے ہاتھ شکار ہو کران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرتے ہیں اور عوام سے جوتیاں کھا کر الوداع ہوتے ہیں۔ مگر اس دوران وہ اپنا زندگی بھر کا بینک بیلنس بنا لیتے ہیں۔۔۔
اور پیار کی خوشبوسے واقف جس شہر کا باسی کوئی نہ ہو اس شہر کی گہما گہمی میں خوشبو کوں خریدے گا۔