جناب اسپیکر قوم کو ادھورے سچ قبول نہیں

Mirza Ghalib

Mirza Ghalib

مرزا غالب نے کہا تھا قرض کی پیتے تھے اور اس سوچ میں گم تھے
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی الٹا عدم ادائیگی کے باعث ان پر قرض خواہوںنے مقدمہ کر دیا مرزا غالب کو ایک انگریز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا حالات وواقعات سننے کے بعد انگریز مجسٹریٹ فیصلہ سنانے لگا تو مرزا غالب نے اس سے کہا تسلیم کرتا ہوں میں نے قرض دینا ہے لیکن جناب مجھ سے کچھ رعائت برتی جائے کیونکہ میں آدھا انگریزہوں مجسٹریٹ نے تجسس سے دریا فت کیا وہ کیسے؟ میں شراب پیتاہوں مرزا غالب نے اطمینان سے جواب دیا سو ٔ رنہیں کھاتا۔

یہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس دیا اور مرزا غالب کو قرض چکانے کیلئے مزید مہلت دیدی۔ ہمارے ملک کے کئی مے نوش اس لئے اتراتے پھرتے ہیں کہ وہ آدھے انگریزہیں اگر وہ ارکان ِ اسمبلی ہوں تو پھر سونے پر سہاگے والی بات ہوئی نا ویسے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ایم این اے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلیں اور مجروں کی بات کرکے اقتدار کے ایوانوں میں تھر تھلی مچادی ہے جس پر اب وضاحتیں پیش کی جارہی ہیں البتہ وزیر ِ اعظم کی طرف سے ابھی تک کوئی رد ِ عمل کااظہار نہیں کیا گیا کچھ اندر کے لوگوں کا کہناہے کہ وہ لوگ بھی شراب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جو پانی کی طرح پیتے ہیں غالباً ایسی ہی صورت ِ حال پر غالب نے ہی کہا تھا
یہ مسائل ِ تصوف اور تیرا بیان غالب ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوارہوتا کہتے ہیں ایک لڑکی کی شادی ہوئی وہ 15 دنوں بعد میکے آئی اور آتے ہی دھاڑیں ما مارکر رونا شروع کر دیا ماں باپ نے پریشان ہوگئے۔

Pakistan

Pakistan

مجھے آپ نے کس کے پلے باندھ دیا؟ آخرہوا کیا ہے؟ ماںنے پو چھا میرا خاوند بہت بڑا شرابہ ہے۔ لڑکی نے آنسو پوجھتے ہوئے جواب دیا تج ھے اب اپنے دنوں بعد پتہ چلا ہے باپ نے سخت لہجے میں کہا ہاں لڑکی نے روتے روتے کہا کیونکہ آج وہ پئے بغیر گھر آگیا تھا کہتے ہیں پاکستان میں روزانہ کروڑوں کی شراب پی جاتی ہے اور پینے والوں میں ہر عمر ہر جنس کے لوگ شامل ہیں راولپنڈی کی ایک شراب سازفیکٹری دن رات دھرا دھڑ شراب تیار کر رہی ہے۔ سالانہ کروڑوں اربوں کی ولایتی شراب بھی امپورٹ کی جاتی ہے سمگل ہوکر آنے والی بڑی کھیپ الگ ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں غیر قانونی طور دیسی شراب بھی ٹنوں کے حساب تیار اور فروخت ہوتی رہتی ہے کچی شراب پینے سے ہر سال سینکڑوں افرادکی ہلاکت کے باوجود قانون وقتی طور پر حرکت میں آتا ہے اور کئی پولیس اہلکاروں کو مالا مال کر کے پھر سو جاتا ہے شنید ہے کہ پاکستان میں ویلنٹا ئن ڈے، ہیپی نیو ایئر، کرسمس، بسنت اور عیدین جیسے تہواروں پر شراب کی کھپت میں اضافہ ہو جاتا ہے شاید پینے والے یہ سوچ کر پیتے ہیں۔

آگے چل کر حساب ہونا ہے
اس لئے بے حساب پی لیجئے

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب نے حرمتِ شراب کا جو حکم دیا ہے و ہ سر آنکھوں پر ! لیکن یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے شراب شراب ہوتی ہے اور یہ ہمیں تو کچھ نہیں کہتی۔ لیکن وہ یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے ایک سابق وزیر ِ اعظم نے بھی” پینے” کا بر ملا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ۔ ہاں پیتا ہوں تھوڑی سی پیتا ہوں قوم نے ان کی اس غلطی کو معاف نہ کیا
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہلچل نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل کا عقیدہ رکھنے والے یقینا غلطی پر ہیں مذہب، اخلاق، قانون اور معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مسلمان شرابی ہو، ارکان اسمبلی تو پھر عوام کے منتخب نمائیدے ہیں جن کا کردار رول ماڈل ہونا چاہیے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلوں اور مجروں کا انکشاف کیا ہے اس پر لے دے ہی کافی نہیں صاف، شفاف، غیر جانبدار طریقے سے ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے ایک اہم بات یہ ہے۔

پارلیمنٹ لاجزسے شراب کی ڈھیروں بوتلیں ملنے کا مطلب ہے یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں جتنا نظر آرہا ہے اس لئے مٹی پائو والا فلسفہ کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہوگا اسلام کی حد اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں ایسے تمام ارکان ِ اسمبلی کو نااہل قرار دینا سپیکر قومی اسمبلی کی اخلاقی، قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ جیسے قانون ساز ادارے میں شرابیوں کی موجوگی خطرے کی گھنٹی ہے یہ بااثر لوگ یقینا کبھی ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ہونے دینگے ان کی موجودگی 18 کروڑ عوام کی توہین اور اسلامی تعزیرات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جمشید دستی نے جو کچھ کہا عوام نے جو کچھ سنا کیا سپیکر قومی اسمبلی سچ بتانا پسند کریں گے؟ ادھورے سچ قوم کو کبھی قبول نہیں کرے گی عوام سچ اور صرف سچ جاننا چاہتے ہیں۔

Ilyas Mohammad Hussain

Ilyas Mohammad Hussain

تحریر: الیاس محمد حسین