جنوبی پنجاب کا مزاحمتی جمشید دستی

Jamshed Khan Dasti

Jamshed Khan Dasti

جمشید خان دستی سے برسوں کی شناسائی ہے اُس نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو استحصال، ناانصافی، صحافت کے خلاف مزاحمت اس کے ساتھ ساتھ رہی مشرف دور کے ضلع ناظم اور آج کے میاں برادارن کے ساتھی مظفر گڑھ کے جاگیردار سلطان محمود ہنجرا نے جب ضلع نظامت کی نشست حاصل کرنے کیلئے خریدو فروخت کا بازار لگایا تو ضلعی اسمبلی میں لیبر کی نشست پر منتخب ہو کر پہنچنے والے جمشید دستی نے اس خریدو فروخت کے خلاف ہر فورم پر مزاحمتی آواز اُٹھائی مجھے جمشید خان دستی کی وہ پریس کانفرنس آج بھی یاد ہے جس میں اُس نے کہا تھا کہ ممبران کی وفاداریاں خریدنے کیلئے تحصیلداروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں اُس نے وفاداریو ں کیلئے یر غمال بنائے جانے والے ممبران کی تعداد بھی بتائی ایک جاگیردار سیاست دان کے خلاف مزاحمت کا کردار ادا کرنے پر جمشید دستی کو 302 کے ایک ناجائز مقدمہ میں پھنسا دیا گیا۔

مشکل ترین مرحلہ کی زد میں آنے کے باوجود جمشید دستی کا مزاحمتی کردار زندہ رہا وہ ضلعی اسمبلی کے فورم پر اُسی طرح گرجتا رہا جس طرح ناجائز مقدمہ کی زد میں آنے سے قبل گرجتا تھا ضلعی نظامت کا دوسرا دور آیا تو جمشید دستی نے مظفر گڑھ شہر سے سٹی ناظم کی نشست کیلئے اپنے کاغذات جمع کرائے عوام کے اندر جمشید دستی کا مزاحمتی کردار زندہ تھا اس لیئے عوامی نتائج کا فیصلہ بھی جمشید دستی کے حق میں آیا اس جیت کے بعد یا پہلے عام فرد کا کوئی مسئلہ ہوتا جمشید خان بیورو کریسی کے خلاف اُس مسائل زدہ فرد کے ساتھ کھڑا ہوتا اس نے اپنے شہر کے عوام کی عدالت میں خود کو ایک خادم بنا کر پیش کیا۔

سابق وفاقی وزیر مملکت قیوم جتوئی نے جب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے مشرف کے اقتدار کو شکست دیکر ضلعی نظامت کا الیکشن جیتا تو جمشید دستی قیوم جتوئی کے شانہ بشانہ کھڑا تھا مشرف کی سر پرستی میں اقتدار کا کھیل کھیلنے والوں کو بھلا یہ کیسے گوارا تھا کہ پنجاب کے کسی ضلع میں کوئی ضلع ناظم ہمارے ناک میں دم کردے پنجاب حکومت نے قیوم جتوئی اور جمشید دستی کے ضلع کے ترقیاتی فنڈز بند کر دیئے اور اُس نظام میں جس میں ایک ڈی سی او کی اے سی آر ایک ضلع ناظم لکھتا تھا مظفر گڑھ میں سارے اختیارات ایک ڈی سی او کی دسترس میں دے دیئے، تحریک عدم اعتماد جیسے بھونڈے کردار اور غیر آئینی طریقے سے قیوم جتوئی کو ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

جمشید دستی اس سازش کو بے نقاب کر نے کیلئے قیوم جتوئی کو لیکر پریس کلب لاہور پہنچ گیا اور پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا دیا جمشید دستی کی مزاحمت یہان بھی جیت گئی 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو جمشید دستی کی یہ الیکشن لڑنے کی قطعاً خوہش نہ تھی اُس کے سامنے یہ دولت، دھونس، دھاندلی کا کھیل تھا جمشید خان کا تعلق تو عوام سے تھا مزدور طبقہ سے تھا دولت کی طاقت کے سامنے وہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں تھا مگر عوام کی طاقت کے سامنے جمشید کو ہار ماننا پڑی وہ اُسے اپنا نمائندہ دیکھنا چاہتے تھے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب مظفر گڑھ میں اپنا آخری جلسہ کیا تو جمشید دستی کو پارٹی کا اثاثہ قرار دیا دیا جمشید دستی عوام کی عدالت میں ایک بار پھر سرخرو ہو چکا تھا وہ ایم این اے بنا تو میں نے سوچا کہ شاید جمشید دستی ہماری سیاست کی اُس روایت کو نہ توڑ سکے جو ایک مرض کی شکل میں اس طرح لاحق ہے کہ ایم این اے یا ایم پی اے کی شکل میں عوامی نمائندوں کا تعلق جیت کے بعد عوام سے نہیں ہوتا اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو کر شاید جمشید دستی کا مزاحمتی کردار ختم ہو جائے مظفر گڑھ میں ہی مقامی پریس فوٹو گرافر خالد مجید بروقت طبی امداد نہ ملنے سے مسیحائوں کی بے حسی اور غفلت کی بھینٹ چڑھ گیا۔

لواحقین نے غفلت برتنے والے اور خالد مجید کو دانستہ موت کے میں دھکیلنے والے مسیحا حمید غوری کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے خلاف مقدمہ تو درج ہوگیا مگر گرفتاری اس بنا پر نہ ہو سکی کہ مسیحائوں نے ایک قاتل کو بچانے کے لیے ہڑتال کی شکل میں ایکا کر لیا۔ جب کسی کا پیاراکسی کے ہاتھوں جاں سے گزر جائے تو جذبات کا سیلِ رواں روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ خالد مجید کے ورثاکے ساتھ مظفر گڑھ کے عوام بھی مشتعل ہوگئے اور کچہری چوک میں ٹائر جلا کر شاہراہ کو مکمل طور پر بلا ک کر دیا۔ واقعہ کی اطلاع جمشید دستی کو ملی تو وہ خالد مجید کے ورثا اور ڈاکٹروں کے درمیان پل کا کردار بننے کے لیے آپہنچا۔

خالد مجید کے ورثا اور مشتعل مظاہر ین تو جمشید دستی کی بات مان گئے۔ مگر جب جمشید دستی صدر ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹرز نے جمشید دستی کے خلاف نہ صرف نعرے لگائے بلکہ خالد مجید کے بھائی قاسم مجید اور جمشید دستی کے گن مینوں پر تشدد کیا پھر جمشید دستی کے ساتھ آئے مشتعل عوام نے جمشید دستی کی بھی نہیں سنی۔ انہوں جذبات کی رو میں کچھ نہیں دیکھا مسیحائوں کی دوسرے روز کی ہڑتال نے 2 اور انسانوں احمد بخش غلام حسین کی جان لے لی۔ جمشید دستی کے خلاف ان نام نہاد مسیحائوں کی شکل میں ایک طاقتور مافیا حرکت میں آیا اور اس کے خلاف ہر طرف سے محاذ کھل گئے اور خالد مجید کو قتل کرنے والے مسیحائوں سے بڑا مجرم جمشید دستی بن گیا جمشید دستی پیپلز پارٹی میں گیا تو وہاں بھی اُس کی سچائی اور اُس کا مزاحمتی کردار اُس کا جرم بن گیا سچ اُس کی زبان پر آتا رہا اُس نے گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے خلاف ایک پریس کانفرنس کی اور بہت سخت الفاظ کہے یہ پارٹی پالیسی کے خلاف تھا اور آج پھرجب اُس نے یہ برہنہ سچ اُگل کرکہ ” پارلیمنٹ لاجز میں 7 کروڑ کی شراب نوشی ہوتی ہے دو شیزائیں سارا دن لاجز میں گھومتی ہیں بعض کی حالت برہنہ ہوتی ہے۔

جنہیں پولیس پکڑ کر زبردست ایم این ایز کے کمرے میں لے جاتی ہے اپنے سامنے ایک ایسے طبقے کی دیوار کھڑی کر لی ہے کہجن کی عیاشی اور فحاشی اُن کا اثاثہ ہے اوڑھنا بچھونا ہے اسی لیئے ہر طرف سے برستے تیروں کا رخ جمشید دستی کی طرف ہو گیا ہے ایک طاقتور طبقہ کی شکل میں سارے ”ولن ”اُس کے خلاف صف آراء ہیں مگر میری وہ رائے دم توڑ چکی ہے کہ اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو کر جمشید کا مزاحمتی کردار شاید ختم ہو جائے صحافت کی طرح سیاست میں بھی اُس کا مزاحمتی کردار زندہ ہے مزاحمت آج بھی اُس کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے وہ جب ضلعی اسمبلی میں داخل ہوا تو یہی مزاحمت اُس کے ساتھ تھی اور آج قومی اسمبلی میں بھی یہ مزاحمت اُس کی ساتھی ہے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر:ایم آر ملک