ہمارے گھر کا لاڈلا، میری ماں کی جان، ہمارے گھر کی پہچان، میرا بھائی رینجرز کی اندھی گولی سے مرگیا۔ وہ بھائی جو ہمیں کبھی روتا نہ دیکھتا اور نہ ہی ہماری کوئی پریشانی برداشت کرتا۔ گھر کے ہر دکھ سکھ میں سب کے ساتھ ہوتا۔ میڈیا والو! آپ میرا بیان تو لے رہے ہو۔ لیکن خدارا میرے بھائی کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں میری مدد کرو۔ یہ چیخ و پکار کی آوازیں تھیں ذیشان نامی اس نوجوان کی بہن کی جو کراچی میں رحم اللہ نامی رینجرز اہلکار کی گولی کا نشانہ بنا۔ اور موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گیا۔ جی ہاں یہ وہ ہی ذیشان نامی نوجوان ہے جو ٹریول ایجنسی کا کاروبار کرتا تھا۔ اور کچھ عرصہ قبل بدقسمتی سے شافیعہ نامی عورت سے محبت کی شادی کر بیٹھا۔ کچھ دن ہی گزرے، میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ اور بات طلاق تک جا پہنچی۔ ذیشان کی بیوی نے خلع کے لیے عدالت میں کیس دائر کردیا۔ کیس عدالت میں چل رہاتھا۔ لیکن دوسری طرف ذیشان اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے کوشاں تھا۔
کچھ دن قبل ذیشان اپنی بیوی کو منانے ناگن چورنگی پہنچ گیا۔ ناگن چورنگی ذیشان اپنی بیوی کو صلح کے لیے راضی تو نہ کرسکا۔ لیکن دونوں میاں بیوی میں ایک دفعہ پھر جھگڑا شروع ہوگیا۔ اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ میاں بیوی میں لڑائی بھڑھتی گئی۔ قریب ہی موجود مسجد کی چھت پر سیکیورٹی پر تعینات رینجرز اہلکار رحم اللہ نے اس واقعے کو اغواء کی واردات سمجھ لیا۔ اور لڑائی کے قریب اکٹھے لوگوں کے ہجوم کو ذیشان کے ساتھی سمجھ لیا۔ بس پھر اسکے بعد بجائے اسکے کہ رینجرز اہلکار اپنی اس غلط فہمی کو دور کرتا۔ اس نے تو مسجد کی چھت سے سیدھا فائر کر ڈالا۔ اور رینجرز اہلکار کی پستول سے نکلنے والی گولی ذیشان کی موت کا سبب بنی۔ ذیشان سڑک پر تڑپتا رہا۔ لوگوں نے ہسپتال لے جانے کی کوشش کی۔ لیکن رینجرز جوانوں نے کسی کو بھی پاس آنے سے روک دیا۔ اور ذیشان کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس لازمی قرار دیدی۔
قارئین رینجرز اہلکار گزشتہ 3 برسوں میں میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی میں 13بے گناہ لوگوں کو مختلف غلط فہمیوں میں قتل کرچکے ہیںکبھی جان کی بھیک مانگتے سرفراز شاہ نامی نوجوان کا قتل ،تو کبھی ٹیکسی ڈرائیور کا قتل۔ آخر کب تک رینجرز اہلکار وں کی غلطیاںماوں کی بھری گودوں کواجاڑتی رہیں گی۔ کب تک رینجرز جوان کراچی کے گھرانوں سے سرفراز شاہ اور ذیشان جیسے نوجوانوں کو چھینتے رہیں گے۔ایک طرف عوام شدت پسندوں کی کاروائیوں سے پریشان ہیں تو دوسری طرف ان شدت پسندوں کو لگام ڈالنے والے سیکیورٹی اداروں کے کچھ لوگ ان کے معصوم بچوں کو مار کر ان کے خوف میں اضافہ کررہے ہیں آپ کو بتاتا چلوں کہ رینجرز کے ہاتھوں مرنے والے 13 بے گناہ لوگوں میں سے صرف 3کا مقدمہ رینجرز کے خلاف درج ہوسکا۔ذیشان تو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔لیکن ارباب اختیار کو اس کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں تو اس کے گھر والوں کی مدد کرنا ہو گی۔
ذیشان کی موت یقینا کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔؟ 1 ( جس جگہ ذیشان کو گولی لگتی ہے میڈیا کو حاصل ہونے والی ویڈیوز کے مطابق اس جگہ اس کی بیوی بالکل ٹھیک کھڑی ہے۔ اور وہ خود ایمبولینس میں بیٹھ کر اپنے شوہر کے ساتھ ہسپتال جاتی ہے۔ تو اسکی بیوی زخمی کس وقت ہوئی۔ 2) جس طرح ہی ذیشان کو ایمبولینس میں ڈالا گیا۔ رینجرز اہلکاروں نے ایمبولینس کی چابی کیوں نکال لی۔ 3) ناگن چورنگی پر موجود لوگوں کو پرائیویٹ گاڑی میں ذیشان کو ہسپتال لیے جانے کی اجازت کیوں نہ دی۔ 4) مسجد کی چھت پر سیکیورٹی پر تعینات رحم اللہ نے کیوں نہ گولی چلانے سے پہلے اپنے ساتھیوں کو موقع پر آنے کی کال کی؟ 5) ذیشان کی بیوی نے اپنا بیان کیوں بار بار بدلا؟ بیان کے مطابق کبھی جھگڑا اور کبھی اغواء کا الزام ؟ انوسٹیگیشن ٹیم کو اس کیس سے متعلق کسی بھی قسم کی رپورٹ تیار کرنے سے پہلے ان تمام سوالات کومد نظر ضرور رکھنا ہو گا۔
Sindh Police
لیکن اس واقعہ کے بعد سندھ پولیس نے بھی روایت کے مطابق کام لیا۔ سندھ پولیس نے ذیشان کی بیوی کی مدعیت میں تو اغواء کا مقدمہفوری درج کرلیا۔ لیکن ذیشان کے لواحقین کی طرف سے دی گئی قتل کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جاتا رہا۔ یقینا رینجرز کے دباو کی وجہ سے پہلے ذیشان کے لواحقین کی مدعیت میںمقدمہ درج نہ کیا گیا۔ اور واقع کے 24 گھنٹے کے بعد لواحقین کے بھرپور احتجاج کے باوجود ایک الگ ایف آئی آر تو نہ کاٹی گئی۔ لیکن ذیشان کے گھر والوں کا بیان پہلی ایف آئی آر میں درج کرلیاگیا۔ لیکن اس بیان کو بھی ایف آئی آر میں شامل کروانے کے لیے ذیشان کے گھر والوں کو لاش سڑک پر رکھ کر دھرنا دینا پڑا۔ لیکن افسوس سندھ پولیس کی اعلی قیادت پر جنہوں نے اتنا بڑا واقع ہونے کے باوجود، ساری رات میڈیا پر خبر چلنے کے باوجود مقامی تھانے کو ذیشان کے لواحقین کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹنے کی ہدایت نہ کی۔ اور حیرانی رینجرز ترجمان کے اس بیان پر ہوئی جس کے مطابق لوگوں نے رینجرز کو اغواء کی اطلاع دی۔
جناب نے یہ بیان دینے سے پہلے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر لوگوں نے رینجرز کو اغواء کی اطلاع دی تھی تو رینجرز کی گشت کرنے والی گاڑی نے موقع پر پہنچ کر معاملہ کیوں نہ جاننے کی کوشش کی۔ مسجد کی چھت پر معمور سیکیورٹی اہلکار نے گولی کیسے چلادی۔ لیکن اب کراچی میں موجود تمام انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کراچی کے تمام شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ اور تمام سیکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ نہ کہ عوام کو گاجر، مولی سمجھ کر اپنی اندھی گولیوں کا نشانہ بنا تے رہیں۔ ذیشان کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے گورنمنٹ آف سندھ ایک اعلی سطح کی انکوائری کمیٹی بنائے۔ جو میرٹ پر تفتیش کرتے ہوئے ذیشان کے قاتلوں کو انجام تک پہنچائے۔
میرے اس قالم کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کراچی میں شدت پسندوں کے سامنے دیوار بننے والے بہادر، رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیاجائے۔بلکہ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی گولی چلانے سے پہلے تحقیات مکمل کرلیا کریں۔