ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا ہو گی: مولانا فضل الرحمان

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

اسلام آباد (جیوڈیسک) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی ہے کہ مذاکرات صرف طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ فاٹا میں موجود دیگر دہشتگردوں تنظمیوں کے ساتھ بھی ہونے چاہیں۔ کسی ایک گروپ کیساتھ مذاکرات کیے تو دوسرا گروپ دھماکے کرے گا۔ آپریشن ہوا تو حالات بے قابو ہو جائیں گے۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو اور قومی اسمبلی میں داخلی سلامتی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سلامتی پالیسی میں خارجہ امور پر زور نہیں دیا گیا۔ ‏‫ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا ہو گی۔ اس پالیسی میں مدرسہ ریفارم کی شق نکالنا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‏جب بھی اس ایوان میں مذاکرات کی بات ہوئی تو دوسری طرف سے مخالفت کی گئی۔ ابتک بہت سی قراردادیں ایوان میں لائی گئیں اور ہمشہ آپریشن کی بات کی گئی۔

مذاکرات کیلئے ہماری قانونی تجاویز پر غور کیا گیا تو ہم حکومت کا ساتھ دیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکرات صرف طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ فاٹا میں موجود دیگر دہشتگردوں تنظمیوں کے ساتھ بھی ہونے چاہیں۔ ہماری اس تجویز کو سراہا تو گیا لیکن عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ کسی ایک گروپ کیساتھ مذاکرات کیے تو دوسرا گروپ دھماکے کرے گا۔

جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 80 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور 60 ہزار بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن تب بھی ہم پالیسی تبدیل نہیں کریں گے۔ فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں طالبان کو ایک ریاست کے برابر درجہ دیا گیا جو ایک مذاق ہے۔

طالبان کے حجم کو کمزور کیا گیا نہ ہی ان کے موقف کو کمزور کیا گیا، فوج کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہے، پوری قوم مذاکرات پر متفق ہے جنگ پر نہیں۔ طاقت کا استعمال آخری آپشن کے طور پر ہوتا ہے۔ طاقت کا استعمال کیا گیا تو حالات بے قابو ہو جائیں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اسلام نافذ کرنے کیلئے کوئی ہتیھار اٹھائے گا تو کیا ہم اسے مارے گے۔ ‏

ہمیں تو اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے تھی لیکن نہیں ہوئی، صرف مغرب کی خدمات کیلئے ہم نے اپنے معاشرے کو تباہ کر دیا ہے، ‏‫مغرب کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی کی جاتی رہی۔