ترک وزیراعظم بلدیاتی انتخابات میں شکست پر سیاست چھوڑنے کو تیار

Rajab Tayyab Erdogan

Rajab Tayyab Erdogan

انقرہ (جیوڈیسک) ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر میری جماعت انتخابات میں فاتح کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آتی ہے تو میں سیاست چھوڑنے کو تیار ہوں۔ ترکی میں 30 مارچ کو بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور ان کو رجب طیب ایردوآن کی مقبولیت جانچنے کا پیمانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وزیراعظم ایردوآن اور اے کے پارٹی کے دوسرے عہدے داروں اور وزراء پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات سے جماعت کی مقبولیت پر فرق پڑا ہے۔

میٹروپول ریسرچ کمپنی کے جنوری میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق اے کے پارٹی کو 3۔36 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل تھی۔ اس طرح اس کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ 2011ء میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں اس جماعت نے پچاس فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ ترک وزیراعظم کو گزشتہ ماہ آن لائن آڈیو ٹیپ منظر عام پر آنے کے بعد سے سخت تنقید اور دبائو کا سامنا ہے۔ ان آڈیو ٹیپس میں وہ مبینہ طور پر اپنے بیٹے بلال سے گفتگو کر رہے ہیں اور اس گفتگو کا محور بھاری رقم کو ٹھکانے لگانا ہے۔

انھوں نے ان آڈیو ٹیپس کو جعلی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور اسے اپنے سیاسی حریفوں کی جانب سے رکیک حملہ قرار دیا ہے لیکن حزب اختلاف نے ان ٹیپس کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی میں حکمراں اشرافیہ کے رشوت اور بدعنوانی میں ملوث ہونے کا بڑا سکینڈل دسمبر میں منظر عام پر آیا تھا اور اس کے بعد سے وزیراعظم رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان سے مستعفی ہونے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس سکینڈل کے بعد ان کی کابینہ کے تین وزراء اور متعدد ارکان پارلیمان مستعفی ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی حکومت نے اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سیکڑوں پولیس افسروں کو برطرف کر دیا ہے مگر ان کے مخالفین نے ان برطرفیوں کو بدعنوانی کے سکینڈل کی تحقیقات روکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ بدعنوانی کے اس بڑے سکینڈل کی تحقیقات کو رجب طیب ایردوآن کی حکومت اور امریکا میں جلا وطن بااثر ترک مسلم سکالر فتح اللہ گولن کے حامیوں کے درمیان کشیدگی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

وہ اگرچہ امریکا میں رہ رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پیروکار ترک حکومت، پولیس اور عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ وزیراعظم نے بدعنوانی کے الزام میں اپنے اتحادیوں کے خلاف تحقیقات کی مذمت کی تھی اور ان کو اپنی حکومت کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش قرار دیا تھا۔

تاہم انھیں اس وقت اپنے گیارہ سالہ دور حکومت میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ انھوں نے ”غیر ملکی جماعتوں” پر اس کرپشن سکینڈل کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس کا مقصد ان کی حکومت کا خاتمہ ہے۔