مذاکراتی عمل اور اندیشے

Ceasefire

Ceasefire

جب گزشہ دِنوں تحریک طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو قوم کو یہ قوی اُمید ہوچلی تھی کہ اَب مُلک میں دہشت گردی اور خون خراب بند ہو جائے گا مگر افسوس کہ ٹی ٹی پی کے اِس اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد مُلک میں دہشت گردی کے کئی ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جنہیں قوم کبھی بھی نہیں بھلا پائے گی اگرچہ اِن پیش آئے واقعات سے ٹی ٹی پی کی قیادت نے لاتعلقی کا اِظہار تو کیا مگر اَب جتنے چاہے جھوٹ بولے یابہانے بازی کرے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک مُلک کے سادہ اور عام شہریوں کی اکثریت یہی سمجھ رہی ہے کہ خود ٹی ٹی پی نے ہی یہ سارے دہشت گردی واقعات کروائے تھے اور اِس کی جانب سے کیا جانے والا ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان محض دکھاوا اور جھوٹ تھا، اَب ایسے میں قوم بٹ کر رہ گئی ہے آج واضح طور پریہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ایک طبقہ یہ کہہ رہاہے کہ دونوں جانب (حکومت اور شدت پسندوں) سے مذاکرات سچ کی بنیاد پر کئے جائیں تو وہیںکچھ کا یہ بھی خیال ہے مذاکرات اور آپریشن ساتھ ساتھ کئے جائیں اور اِسی طرح ایک ٹولہ یہ بھی کہتانظرآرہاہے کہ مذاکرات وذاکرات کے بجائے شدت پسندوں پر براہ راست آپریشن کیا جائے تاکہ باربار کے جھوٹی جنگ بندی اور جھوٹے امن سے ایک ہی بار فوجی کارروائی کرکے قوم کی جان جھوٹوں اور شدت پسندوں سے چھڑادی جائے تاکہ مُلک میں دائمی امن و امان قائم ہوجائے۔

اَب ایسے میں ہمیں گزرے زمانے کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پچھلے وقتوں میں جب کبھی اور کہیں بھی مذاکرات ہوئے اِن سب کا دارومدارسچ پر قائم رہاہے، تب تو اِن مذاکرات کے مثبت اور تعمیری نتائج بھی نکلے ہیں تو جب ہی دنیاکی ترقی اور اور خوشحالی کی راہ بھی ہموارہوئی ہے، یوں دنیا کی جن اقوام نے سچ کو اپنالیا توترقی اور خوشحالی نے اِن کی قدم بوسی کی ہے اورجن قوموں نے سچ کو گڑھے میں پھینک دیااور جھوٹ کو گلے لگالیاتوپستی اور گمنامی اِن کا مقدربنی ہے۔

آج جس انداز سے میرے دیس میں مذاکراتی سیاست کا عمل دخل ہورہاہے اَب ایسے میں جلد چھلنی سے یہ علیحدہ کیاجائے کہ اِس مذاکراتی سیاسی عمل میں کون کتناسچاہے …؟ اور کون کتناجھوٹا…؟اور کس کا کتناسچ جھوٹ پر حاوی رہے گا…؟ اور آنے والے وقتوں میں کس کا کتناجھوٹ سیاست کے میدان اور مُلکی معیشت سمیت دیگر مُلکی اُمور میں سرچڑھ کر بولے گا…؟بہرحال…!حکومت اور شدت پسندوں کی جانب سے مذاکراتی عمل پھر سے شروع ہوگیا ہے، اَب ایک بار پھر ہمیں اچھی اوربھلی اور خدانخواستہ بُری اُمیدوں کے ساتھ اُس وقت کا اُسی بیقراری سے انتظارکیاجاناچاہئے کہ جس طرح ہم سب نے پہلے والے مذاکراتی مراحل کے آنے والے نتائج سے قبل انتظار کیا تھا۔

Lie

Lie

بہر کیف ..!ابھی میں ایک بہت ہی مختصراور سمجھ میں آنے والی یہ بات کرنا چاہوں گا کہ ازل سے ہی ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میں جھوٹ کو مسائل الاسبات سمجھا گیا ہے یعنی یہ کہ ہردور کی ہر مذہب و نسل کے ہر اِنسان نے یہ بات تسلیم کر لی کہ جھوٹ مسائل پیدا کرنے کی پہلی اکائی ہے اور اِسی طرح آج بھی یقینی طور پر یہ بھی مانا جاتا ہے کہ معاشروں میں جھوٹ کے پروان چڑھنے سے مسائل بڑھتے ہیں جس سے اِنسان کی زندگی قلیل ہوتی ہے، اور جب اِنسان کی زندگی قلیل ہوجاتی ہے تواِس سے جہاں اِنسان کے کاموں اور ذمہ داریوں کی ترتیب بگڑتی ہے تو وہیںوہ جلدبازی میں ایسے کام بھی کرناشروع کردیتاہے جو بسااوقات خود اِس کی اپنی عقل میں بھی نہیں آرہے ہوتے ہیں،مگر اِنسان اپنی ہی ڈگر پر چل رہا ہوتا ہے۔

ایک اور بہت اہم مگربہت ہی مشکل اور افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جھوٹ سرچڑھ کر بولتا ہے اور اچھے اچھوں کو اپنے جادوئی اثر میں جکڑ لیتا ہے، اَب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نے گزرے زمانے میں جھوٹ کو روکنے اور اِس کے بڑھتے ہوئے رجحان کوکم کرنے یا اِسے بُراجان کر دوسروں کے نزدیک اِس کی نقصان پہنچانے والی تصویر کھینچی ہے…؟ تو اِس پر عرض یہ ہے کہ جھوٹ کو ہر زمانے کے ہر اِنسان نے غلط اور اِسے معاشرو ں کی تباہی کا زینہ جانا ہے۔

مگر آج پھر بھی انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ موجودہ حالات میں جھوٹ کو سچ سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ، اگرچہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ کا سچ پر نمبر یا بازی لے جاناکسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے،مگر اِس کے باوجود بھی موجودہ صدی کے ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر ملک کا ہر شہری خواہ کسی مُلک کا بادشاہ ہو کہ صدر،فقیرہوکہ بھیکاری سب ہی اپنے اپنے اندازسے جھوٹ بولتے اوراِس کے سہارے ملنے والی اپنی کامیابی اور کامرانی کے گُن گاتے اور ترانے پڑھتے دِکھائی دیتے ہیں۔

اَب یہاں میں خاص طور پر اپنے مُلک پاکستان کا تذکرہ افسوس( مگر طنزاََ اندازسے ہر غلط کام کرنے کے بعدحسبِ عادت فخر)کے ساتھ کرنے جارہاہوں کہ میرے مُلک میں ہمارے ایوانوں سے لے کر مُلک کے دوردراز صحرامیں بنی کسی چھونپڑی تک میں سانس لیتا ہوا اِنسان بھی جھوٹ کے تمام رنگوں میں رنگ کر کچھ ایسی شکل اختیار کر گیا ہے کہ اِس کا اپنا اصل چہر ہ گم ہو کر رہ گیا ہے، اِس کی زندگی سے سچ ایسے ہی نکل چکاہے کہ جیسے شیطان ایک سجدہ نہ کرکے اچھائیوں اور فلاح کے تمام دائروں سے نکل گیا ہے۔

آج میرے مُلک اور میرے معاشرے میں اچھااِنسان کا ملنا مشکل ہوگیاہے، اگرکوئی اچھااِنسان ہے بھی تو وہ بھی جھوٹوں کے معاشرے میں اپنی عزت بچاکر کہیں چھپ کر بیٹھ سا گیاہے، معاف کیجئے گا…! اَب ایسے میں یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آج میرے معاشرے میں سیاست کے میدان سے لے کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں جھوٹ اور جھوٹوں کا راج ہے، آ ج میرے دیس میں کوئی اِنسان کتنے ہی اعلیٰ سرکاری و نجی منصب پر ہی فائز کیوں نہ ہو وہ بھی گردن تان کر سینہ پھولا کر جھوٹ بول رہاہے تو کہیں کوئی فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کے لئے جھوٹ کو گلے لگائے خوش ہورہا ہے۔ غرض کہ آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے دیس کا ہر بندہ مدرشکم میں ہی رہ کر جھوٹ کے انداز سیکھ کر دنیا میں آتاہے،یوں دنیا میں آجانے کے بعد جھوٹوں سے بھرے مُلک اور معاشرے میں قدم رکھتے ہی ایسی ایسی حرکتیں کرنے لگتاہے کہ دوسرے جھوٹوں کے کان کاٹ دیتاہے۔

آج حکومت اور شدت پسندوں میں دوبارہ شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کو ساری پاکستانی قوم خوش آمدیدکہہ رہی ہے مگرساتھ ہی یہ بھی اُمیدرکھتی ہے کہ اِس مرتبہ جھوٹ پر کوئی امن کا محل تعمیر نہیں کیا جائے گا اور قوم دونوں جانب کے (مگر خاص کر شدت پسندوں جیسے جھوٹوں کو یہ باور کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ)” جھوٹااور مردہ یکساں ہیں، مردہ بولتا نہیں اور جھوٹے کی کوئی سُننتا نہیں” لہذا اَب دو اطراف سے سچ کی ہی بنیادوں پر مذاکرات کئے جائیں تاکہ مُلک اور قوم کے لئے بہتر نتائج سامنے آسکیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com