کیف (جیوڈیسک) برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کرایمیا کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر 16 مارچ کو رائے شماری کرائی جائے گی۔ یوکرائن کی عبوری حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ کرایمیا کا روس سے الحاق غیر آئینی اقدام ہے۔ خیال رہے کہ یوکرائن کے علاقے کرایمیا کی زیادہ آبادی روسی زبان بولتی ہے اور یوکرائن میں روس کے حامی صدر کے معزول ہونے کے بعد سے کرایمیا کا مسئلہ بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے یوکرائن کے مسئلے پر روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کو ’مشکل‘ قرار دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ بات چیت کا عمل جاری رہے گا۔ پیرس میں روسی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یوکرائن پر بات چیت مشکل تھی مگر جاری رہے گی۔ جان کیری نے کہا کہ وہ خالی ہاتھ واپس صدر اوباما کے پاس نہیں جا رہے اور مذاکراتی عمل جاری رہے گا۔
پریس کانفرنس میں امریکی وزیرِ خارجہ نے ایک بار پھر کہا کہ ”روس کو یوکرائن کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی”۔ امریکہ کی جانب سے روس اور یوکرائن کی عبوری حکومت کے نمائندوں کی بالمشافہ ملاقات کی کوشش بھی ناکام رہی ہے اور روس کے وزیرِ خارجہ سرگے لاوروف یوکرائن کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ آندرے ڈیش چستیا سے ملاقات کئے بغیر ہی پیرس سے روانہ ہو گئے۔ ہیںلاورورف نے بدھ کو پیرس میں امریکی ہم منصب جان کیری کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزارئے خارجہ سے بھی ملاقاتیں کیں تھیں۔ جان کیری نے اپنی ملاقات میں سرگے لاوروف پر زور دیا تھا کہ وہ براہِ راست یوکرائن کی عبوری حکومت سے بات کریں۔ اُدھر شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کی تنظیم نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندریس فو راسموسین نے کہا ہے کہ یوکرین کی صورتحال کی وجہ سے تنظیم روس سے اپنے تمام روابط پر نظرِ ثانی کر رہی ہے۔ راسموسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیٹو شام کے کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنانے کے لیے روس کے ساتھ اپنے مشترکہ مشن کو بھی معطل کر رہی ہے تاہم اس کا اثر ہتھیاروں کی تباہی کے عمل پر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ روس مسلسل یوکرین کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور نیٹو اب یوکرائن سے اپنے تعلقات مضبوط کرے گی۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے اس بیان پر تنظیم میں روس کے مندوب نے نیٹو پر اپنے ملک کے تئیں سرد جنگ کے پیمانے لاگو کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یوکرائن کے جزیرہ نما کرایمیا میں اپنی فوج تعینات کر رہا ہے۔ امریکہ نے اسے ’جارحانہ کارروائی‘ قرار دیا ہے جبکہ روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے منگل کو یوکرائن کے تنازع کے حل کے لیے روس سے کہا تھا کہ وہ کرایمیا میں موجود اپنے فوجیوں کو خطے میں موجود بحیرہ اسود کے بحری بیڑے پر واپس بلا لے اور یوکرائن میں عالمی مبصرین بھیجے جائیں جو وہاں کے رہائشی روسیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ امریکی صدر کی جانب سے روسی صدر ولادی میر پوتن کو یہ تجویز ایسے وقت میں دی گئی ہے جب بظاہر کرایمیا روس کے کنٹرول میں ہے۔
امریکی صدر کے دفتر کے اہلکار کے مطابق صدر اوباما نے سنیچر کو اپنے روسی ہم منصب سے بات چیت میں انھیں اس منصوبے سے مطلع کیا تھا اور انھوں نے اس بارے میں جرمن چانسل انگیلا میرکل سے تفصیلی بات چیت کی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روس نے نیٹو پر دوہرے کردار اور سرد جنگ کے روایتی حربے بروئے کار لانے کا الزام عائد کر دیا ہے۔
روس کی طرف سے یہ الزام مغربی ممالک کے اس موقف کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ یوکرائن کے معاملات کی وجہ سے تعاون پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ روسی نمائندے الیگزنڈر گرشک نے نیٹو اور روسی حکام کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو کا اجلاس یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیٹو آج بھی دوہرے معیار کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ابھی تک سرد جنگ کے روایتی حربے آزمائے جا رہے ہیں۔