لاہور (جیوڈیسک) مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کی آج اکیسویں برسی ہے۔ جبر و استبداد کے سامنے ڈٹ جانے والا مزاحمت کا یہ استعارہ آج بھی معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔
جبر و استبداد کے سامنے مزاحمت کا ایک استعارہ حبیب جالب جب قلم اٹھاتا ہے تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھتے ہیں۔ جالب آمریت کے خلاف ایک مضبوط صدا تھے، وہ مخلوق خدا پر ایک آمر کو نہیں مانتے تھے۔
وہ برملا کہتے تھے میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے ۔ حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے۔ ضیا دور میں بھی جالب کا قلم آمریت کے مظالم کے باوجود چلتا رہا۔ جالب کی نظم کا یہ شعر بہت مشہور ہوا جس میں اس نے جنرل ضیا کے نام کو ذومعنی بنایا۔
صر صر کو صبا، ظلمت کو ضیا، بندے کو خدا کیا لکھنا۔ جالب نے بینظیر بھٹو دور کی لوٹ کھسوٹ کو اسی کے خاندان کے ناموں کو استعارے میں استعمال کر کے کمال کر دیا۔
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے مقروض ہے دیس کا ہر بلاول پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے حبیب جالب آزاد طبیعت اور حق گوئی پر متعدد بار پابند سلاسل رہے۔ حبیب جالب 12 مارچ 1993ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی انقلابی شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔