خاموش تماشائی

Ghanta Ghar Faisalabad

Ghanta Ghar Faisalabad

پوری دنیا میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اہلِ اقتدار طبقے کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کارو بار میں چونکہ ان کے ذ اتی مفادات منسلک ہوتے ہیں اور صاحبِ اختیار ہونے کی وجہ سے ملکی وسائل ان کے تصرف میں ہوتے ہیں لہذا خدشہ ہوتا ہے کہ وہ انھیں کاروباری معاملات کو بہتر بنانے پر صرف کریںگئے اس لئے انھیں کاروباری دنیا سے دور رکھا جاتا ہے تا کہ حکومتی اختیارات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا یا جا سکے اور مسابقت کا جذبہ مفقود ہونے کی صورت میں وہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر نہ بن جائیں اور سارے اختیارات ان کی ذات میں مرکوز ہونے سے دوسرے کارو باری افراد محروم نہ رہ جائیں۔ سیاستدانوں کے کاروباری دنیا میں اپناہاتھ ڈا لنے سے بہت سے منظورِ نظر افراد فرنٹ مین بن کر اپنے آقائوں کے لئے دولت سمیٹنے میں جٹ جاتے ہیں اور یوں ریاست اور کارو بار با میں فرق مٹ جاتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرانگی ہو گی کہ ساری کی ساری سیاسی الیٹ ہی کاروباری بن چکی ہے۔ان کے سارے کاروبار ان کے اپنے دورِ حکومت میں پھلے پھولے ہیں ۔مسلم لیگ کی تو قیادتیںشروع سے ہی کاروبار سے منسلک رہی ہیں لیکن پی پی پی جو کہ ایک انقلابی جماعت تھی لیکن بھٹو خاندان کے پارٹی قیادت سے ہٹ جانے کے بعد اس جماعت نے بھی کارو باری دنیا میں اپنے قدم جما لئے ہیں اور اب اس کی قیادت کی بھی کئی ملیں،فیکٹریاں اور کارو باری ادارے ہیں۔میاں برادران نے تو جنرل ضیا الحق کے دور میں حکومتی سر پرستی سے خو ب فائدے سمیٹے تھے لیکن ان کا حقیقی صنعتی عروج اس وقت شروع ہوا تھا جب میاں محمد نواز شریف ١٩٨٥ میں پنجاب کے وزیرِ اعلے بنے تھے اور پھر ١٩٩٠ میں ملک کے وزیرِ اعظم بنے تھے۔چند فیکٹریوں سے درجنوں فیکٹریاں وجود میں آگئیںاور میاں برادران کا نام کارو باری دنیا میں ہر طرف گھونجنے لگا۔

ریاست پشت پر کھڑ ی ہو تو پھر لولا لنگڑا انسان بھی ناقابلِ تسخیر سپہ سالار بن جاتا ہے اور اس کی جوانمردی کی دھاک سب پر بیٹھ جاتی ہے کیونکہ اس کی پشت پر ریاست پوری توانائیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور ملکی خزانے اس کے زیرِ تصرف ہوتے ہیںاور یہ سب کچھ پاکستان کے ان چند اہم سیاسی خا ندانوں کے ساتھ ہوا جن کی پہلی ترجیح ذاتی کارو بار کو وسعت دینا تھا ۔۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا اس وقت سرمایہ داری کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ۔مزدوروںکا استحصال بڑی بے ر حمی سے جاری و ساری ہے۔در اصل ١٩٩٠ میں سوشلسٹ انقلا ب کے زمین بوس ہو جانے اور سویت یونین کے بکھر جانے کے بعد مزدوروں کو جو تحفظ حا صل تھا وہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے ۔یورپ میں مزدور تنظیمیں پہلے بڑی فعال ہوا کرتی تھیں لیکن دھیرے دھرے ان کی قوت کم ہو تی چل جا رہی ہے ۔اس وقت پوری دنیا کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مزدوروں کو جھیلنا پڑ ہا ہے۔حکومتی سر پرستی میں چلنے والے اداروں کیلئے مز دوروں کو بے دخل کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ذاتی کاروبا میں سب سے پہلے مزدوروں کو ہی فارغ کیا جاتاہے کیونکہ آجر کا واھد مقصد اپنے منافع کو بڑھا نا ہوتا ہے۔حکومتیں اپنے شہریوں کو روزگار دینے کی پابند ہوتی ہیں اس لئے ان کے ہاں کاروباری لوگوں والی ذہنیت نہیں ہوتی اس لئے کساد باازری میں بھی وہ اپنے ملازمین کو برداشت کرتی ہیں کیونکہ ان کا واحد مقصد اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔فلاحی ریاستوں کا تصور بھی اسی نقطے سے پھوٹا تھا کہ ریاست اپنے شہریوں کی کفیل بھی ہے اور اس کی محافظ بھی ہے۔یورپی ممالک میں ٹیکسوں کی شرع کو شہری اسی لئے برداشت بھی کر لیتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہو تا ہے کہ ان کے ٹیکسوں کو ان کی فلاح پر ہی خرچ کیا جائیگا ۔بے روزگاری الائونس،مفت تعلیم،مفت علاج معالجہ اور اولڈ ہوم اس کی واضح مثالیں ہیں۔پاکستان میں نہ تو ٹیکسوں کا کوئی نظا م متعارف ہو سکا اور نہ ہی ملکی خزانے کو عوامی فلاح و بہبود پر صرف کرنے کی کوئی مضبوط روائت قائم کی جا سکی۔

Tax

Tax

ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کرہضم کر نے کی روش کی وجہ سے عوام اور کاروباری حضرات ٹیکسوں کے نظام سے ہمیشہ باغی ہی نظر آتے ہیں۔ان کی بغاوت کی ایک وجہ تو شفاف نظام کا نہ ہونا ہے اور دوسرے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی دولت کو ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی وہ عادت ے جو ہمارے حکمرانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔۔ پہلے وقتوں میں نج کاری کا کہیں بھی کوئی تصور نہیں تھا بلکہ ریاست ہی سارے اہم اداروں کی محافظ ہوتی تھی ۔اسی قانون کے تحت پاکستان کی ساری قومی صنعتیں منافع بخش تھیں ۔لیکن جب سے پاکستانی سیاست میں پیسے کی عمل داری کا دور شروع ہوا اس وقت صنعتوں کی نجکا ری میںبھی شدت آگئی ۔پی آئی اے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یہ قومی ائر لائن دنیا کی بہترین ائر لائنز میں شمار ہوتی تھی لیکن جیسے ہی ا س میں سیاسی مداخلت شروع ہوئی اور من پسند افراد بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اس کی کارکردگی متاثر ہونے لگی۔کرپشن اور نا اہلی نے اس پر مزید تازیانہ لگا یا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی بہترین ائر لائن کس مپرسی کا شکار ہو گئی اور اس کا نام دنیا کی گھٹیا ترین ائر لائنز میں شمار ہونے لگا۔

اب پی آئی اے پر سفر کرنے سے پہلے کئی دفعہ سوچنا پرتا ہے کیونکہ یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ ائرلا ئن وقتِ مقررہ پر پہنچ پائیگی ۔ سوال یہ پید اہوتا ہے کہ ایسی لاجواب ائر لائن کو اس حال میں کس نے پہنچایا ؟اگر قومی تحویل میں ہوناہی اس کے زوال کی علامت ہے تو یہ تو شروع سے ہی قومی تحویل میں تھی اور اپنی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر دنیا کی نمبر ون ائر لائن بھی رہ چکی تھی لہذا ثا بت ہوا کہ قومی تحویل میں ہونا کسی بھی ادارے کی بری کارکردگی کا معیار نہیں ہے ۔کوئی بھی ادارہ اس وقت خسار ے میں جاتا ہے جب اس میں کارکردگی کا معیار گر جاتا ہے۔کرپشن اور نا اہل افراد کی تعیناتی اس کا سب سے بڑا سبب ہے ۔اگر کوئی ادراہ نجی ہاتھوں میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتاہے تو ا یسے ادرے کو قومی تحویل میں زیادہ بہتر نتائج کا حامل ہونا چائیے کیونکہ اسے بہت سی ایسی سہولیات حا صل ہوتی ہیں جو نجی اداروں کو حاصل نہیں ہوتیں۔لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ قومی تحویل والے ادارے آہستہ آہستہ خسارے کا شکار کر دئے جاتے ہیں کیو نکہ حکمرانوں کی نیتوں میں فتور ہوتا ہے۔

میاں محمد نواز شریف کی موجودہ حکومت نجکاری کے میدان میں معرکہ آرائی پر اتری ہوئی ہے ۔اس کی نجکاری کی پالیسی کی وجہ سے ابھی تک پانچ لاکھ سے زیادہ افراد بے وز گار ہو چکے ہیں اور مزید لاکھوں افراد کے بے روز گار ہونے کا خدشہ موجود ہے لیکن میاں صاحب کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی کیونکہ بے راز گاری سے پیدا ہونے والی اذیت ان کا مسئلہ نہیں ہے ۔محلوں میں رہنے والوں کو غریب کی غر بت سے کیا تعلق اور واسطہ ہو سکتا ہے؟ ان کے مسائل اور ہیں غریب کے مسائل اور ہیں دونوں کا اپس میں کوئی تال میل نہیں ہے اس لئے دونوں میں کوئی مماثلت بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے احساس کے رشتے کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے۔غریب روتا رہے گا حکمران بے حس بنے رہیں گئے اور اپنی دنیا میں مگن رہیں گئے۔

حکمرانوں کی واردات کا انداز یہ ہے کہ جس ادارے پر ان کی رال ٹپکتی ہے اسے پہلے اپنے کارندوں کے ذریعے ناکارہ ثابت کرتے ہیں اور پھر اس ناکارہ ادارے کو اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں ۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔٦ ٥ اداروں کا مستقبل میاں محمد نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے جھنیں نجی شعبے میں دے دیا جائیگا اور خر یدنے والے وہی چند ہاتھ ہوں گئے جو میاں برادران کے ہاتھوں میں ہاتھ دئے ہوئے ہیں۔ ساری دنیا کو علم ہے کہ منشاء گروپ کون ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟اب وہی منشاء گروپ میاں برادران کی اشیر واد سے پورے پا کستان کی ملکیت حاصل کرنے کے در پے ہے اور ہماری اپوزیشن خا موش تماشائی بنی ہوئی ہے کیونکہ اس نے بھی کل کو اقتدار میں آ کر یہی کچھ کرنا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ابھی خا موشی اختیار کر لی جائے تا کہ کل کو ان کی باری آئے تو آج کے حکمران(کل کی اپوزیشن) خاموشی کا مظا ہرہ کرے اور یوں پاکستان کو لوٹنے کا عمل جاری و ساری رہے۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ(چیرمین پیپلز ادبی فورم)