حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ حکومت صرف ڈھائی سال ہے، اس مختصر اور قلیل مدت میں خلقِ خدا نے یوں محسوس کیا کہ زمین وآسمان کے درمیان عدل کا ترازو کھڑا ہوگیا ہے اور فطرتِ الٰہی خود آگے بڑھ کر انسانیت کو آزادی محبت اور خوشحالی کا تاج پہنارہی ہے، لوگ ہاتھوں میں خیرات لیے پھرتے تھے؛ مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا کہ یہاں کوئی حاجت مند باقی نہیں رہا، اور عطیات کو واپس کردیتے تھے، عدی بن ارطاط (والیِ فارس) نے آپ کو لکھا کہ یہاں خوش حالی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام لوگوں کاتکبروغرور میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوگیا ہے، جواب بھیجا لوگوں کو خدا کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دینا شروع کردو۔
ایک طرف لاکھوں اور کروڑوں لوگ امن و مسرت اور راحت وشادمانی کے شادیانے بجارہے تھے، تو دوسری طرف وہ وجودِ مقدس جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا روز بروز لاغر وضعیف ونزار ہوتا چلا جارہا تھا، اسے دن کا چین میسر نہیں تھا، اسے رات کی نیند نصیب نہ تھی، جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے، تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے، جسم اس قدر تروتازہ تھا کہ ازار بند پیٹ کے پٹوں میں غائب ہو جاتا تھا، لباسِ تنعم و عطریات کے بے حد شوقین تھے۔
نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے، خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے، رجاہ بن حیوة کا بیان ہے کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے، آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے؛ لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے، آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور فرش، لباس، عطریات، سازوسامان، محلات، لونڈی وغلام اور سواریاں سب بیچ دیے،اور قیمت بیت المال میں داخل کردی، آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھوکرپہن لیتے تھے، مرض الموت میں آپ کے برادر نسبتی نے اپنی بہن فاطمہ یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اہلیہ سے کہا: ”امیرالمومنین کی قمیض بہت میلی ہورہی ہے لوگ بیمار پرسی کے لیے آتے ہیں اسے بدل دو” حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی نے یہ سنا اور خاموش ہو گئیں، بھائی نے جب پھر یہی تقاضا کیا تو فرمایا: ”خدا کی قسم! خلیفہ اسلام کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے، میں کہاں سے دوسرا کپڑا پہنادوں” اور یہ جوڑا بھی خلیفہ وقت کے بدن پر جو تھا صحیح سالم نہ تھا، اس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔
Sindh Festival
بھوک کے باعث جنم لینے والے حالات کو لفظوں میں بیان کرنا آسان کام نہیں ہے، جدھر نظر دوڑائو المیہ ہی المیہ ہے۔۔۔۔ایک طرف فیسٹیول کے نام پہ دولت کا بے دریغ ضیاع کیا جاتا ہے تو دوسری طرف بھوک سے تنگ انسانیت کا ننگا ناچ ہے۔۔۔
مگر کون دیکھے؟ حکمران میلوں ٹھیلوں میں مصروف ہیںسو دو سو انسانی جانیں ہی چلی گئیں ہیں ایسا بھی کیا طوفان کہ تقریبات ہی منسوخ کر دی جائیں۔۔۔
ویسے بھی غریب تو پیدا ہی مرنے کے لئے ہوتا تڑپنے کے لئے، سسکنے کے لئے ۔۔۔تو میرے وطن کے غریبو! حکمرانوں کی منہ تلک بھری تجوریوں کی طرف مت دیکھو تمہاری قسمت میںاسی صحرا کی تپتی ہوائیں ہیں۔۔۔اسی تھر میں سسک سسک کر بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جائو۔۔اور یہ عالیشان ضیافتیں صرف اور صرف حکمرانوں کو زیب دیتی ہیں۔۔۔سندھ کے اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔تھر کی قحط سالی کی کہانی نے جذبات کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ماں نے کس دل سے اپنے بچوں کو خالی پیٹ نیند کی تھپکیاں دی ہوں گی، کس طرح اپنے لخت جگر کو شہر خموشاں کی جانب بھیجا ہوگا۔
بھوک سے نڈھال بچو ں کی سسکتی ہوئی آوازیں دل کو دہلا دیتی ہے۔امداد سرگرمیاں جاری، مگر امداد صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے،دیہی علاقوں کے باسی اب تک صوبائی حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔تپتی دھوپ اور کچی جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے متاثرین کی آنکھوں میں امید کی کرنیں بجھتی نظر آرہی ہیں، تھر کی خشک سالی کی سنگین صورتحال نے معصوم لوگوں کو جس اذیت میں مبتلا کردیا ہے، اس کے ذمے دار اپنا احتساب کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔
کہانی صرف یہیں پرختم نہیں ہوتی بھوک سے مرنے والوں کی اموات پر اجلاس بلایا جاتا ہے اور طرح طرح کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں ایک بار پھر بھوک سے مرنے والوں کے نام پر شاہی کھانے کھائے جاتیں ہیں شاید یہ شاندار ضیافتیں اڑانے والے ہمارے حکمران ہیں دوسری طرف عمربن خطاب سمجھتا ہے کہ دریائے نیل کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو خدا کے ہاں وہ جواب دہ ہو گا۔