آج جس تیزی سے طلاق کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے یہ مسلمان معاشرے کے ہر فرد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آج سے 30.20 سال پہلے ہمارے ہاں طلاق کو اس قدر برا سمجھا جاتا تھا کہ نام سن کر ہی توبہ کی جاتی تھی اور اگر کہیں میاں بیوی کے رشتے میں رنجش اس قدر بڑھ جاتی کہ وہ طلاق کے بارے میں سوچنے لگتے تو ہرچھوٹا بڑا تنسیخ نکاح کی حد تک پہنچنے والے خواتین و مرد کو سمجھانے اور صلح کروانے کی کوشش کرتے اور جب تک میاں بیوی کی آپسی رنجش ختم نہ ہوجاتی سارا خاندان پریشان رہتا۔ بدقسمتی سے آج ہماری مصروفیت اس قدر بڑ گئی ہے کہ ہمارے پاس کسی بہن بھائی کودینے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیںبچتا،اگر کوئی بہن بھائی ہمیں اپنی پریشانی بتائے بھی توہم اپنا وقت بچانے کے لیے جلدی سے ان کے غلط فیصلے کودرست قرار دے کراپنی جان چھوڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
رشتوں کے ٹوٹنے کی ایک تویہ وجہ بنتی ہے اور دوسری وجہ اسلامی تہذیب سے دوری ہے جس کی وجہ سے ہم بچوں کی تربیت بہتر طریقے سے نہیں کرپارہے۔ویسے توبیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں سمجھنا چاہیے لیکن خاص طور پر بیٹی کی پرورش اس انداز سے ہونی چاہیے کہ اسے گھر چلانا ہے، اچھے برے حالات دونوں ہی زندگی کا حصہ ہیں میاں بیوی کا رشتہ صرف اچھے وقت کے لیے نہیں ہوتا،اگر خاوند کی آمدنی کم ہوجائے تو بیوی بھی کو ساتھ دینا چاہیے نہ کے طلاق لینے کے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے لیکن بد قسمتی ہماری عدالتیں اس طرح کے مقدمات سے بھری پڑی ہیں۔ ان مقدمات میں مدعی بن زیادہ تر خواتین ہی عدالتوں سے رجوع کرتیں ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مردعورتوں سے زیادہ بااختیار ہیں ۔اگر مرد طلاق دیناچاہے تو اسے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
Allah
اسلام میں بھی مرد کے پاس اس بات اختیار ہے کہ وہ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے لیکن بلاوجہ یا شک و شبہات کی بنیاد پر طلاق دینے سے پہلے مرد کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق لینا اور دیناسب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے۔آج ہمارے معاشرے میں اسی برے عمل کی شرع کس حد تک بڑ چکی اس بات کااندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے جو کچھ دن پہلے کے خبارات میں شائع ہوئی خبر کچھ یوں ہے۔
مہنگائی ،تشدد،جوا،منشیات ،دوسری شادی،جائیداد ،کم تعلیم،شک و شبہات اور غیر عورتوں سے تعلقات رکھنے پر اس سال دسمبر تک 18ہزار خواتین اپنے خاوندوں کے خلاف تنسیخ نکاح کے لیے عدالتوں میں گئیں اور اپنے خاوندوں کے خلاف تنسیخ نکاح کے لیے د عویٰ کیا ،اس سلسلے میں 10ہزار خواتین کوعدالتوں سے ڈگریاں جاری ہوئیں جبکہ 6ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں اور باقی کسی کے سمجھانے بجھانے صلح ہوجانے یا عورت کوبعد میں احساس ہونے پرواپس لیے گئے ،ان مقدمات کی سماعت کے دوران خواتین کی طرف سے اپنے خاندوں پر بہت عجیب وغریب الزامات بھی لگائے گئے جن میں ،مہنگائی ،تشدد،جوا،منشیات ،دوسری شادی،جائیداد ،کم تعلیم،شک و شبہات اور غیر عورتوں سے تعلقات اور مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ خراجات میں کنجوسی کرنا شامل ہیں”اس خبر کے مطابق خواتین جن وجوحات کوبنیاد بنا کرعدالت پہنچیں ان کو اگر سچ بھی مان لیا جائے تو بھی بہت کم وجوہات ایسی ہیں جو میاں بیوی کے رشتے میں درڈار ڈال سکیں ، جن میں غیر(نامحرم)عورتوں سے تعلقات ،تشدداور منشیات یعنی نشے کی عادت شامل ہیں۔
ان چاروں باتوں سے اللہ کا دین اسلام بھی سختی سے منع فرماتا ہے ،عورت پر تشدد،نامحرم عورتوں سے جسمانی تعلقات اور نشے کی عادت چاروںہی دور جہالت کی یاد تازہ کرتی ہیں ۔اور جہاں تک بات ہے مہنگائی،دوسری شادی،جائیداد کی کمی،کم تعلیم اورشک وشبہات یہ تمام وجوہات ایسی نہیں کہ ان کی بنیاد پر عورت نکاح توڑنے کی حد تک چلی جائے۔
مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اخراجات میں کنجوسی کا الزام بے حد شرم ناک ہے۔کیونکہ نہ تو مہنگائی مرد کے بس میں ہے اورہی نہ آج کے دور ایسے روزگار میسر ہیں جن کے ذریعے ایک دم آمدنی چار گنا بڑھائی جاسکے اور پھر کس کا دل کرتا ہے کے اس کے بیوی بچے کھانے پہننے کے لیے ترسیں ؟چلئے تھوڑی دیر کے لیے ساری باتیں درست مان لیتے کہ میاں بیوی کے رشتے میں ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیںجو انہیں علیحدہ ہونے کے لیے کافی ہیں لیکن وہ بچے جومیاں بیوی کے اکھٹے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان کا کیاگناہ ہے ؟میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں ان بچوں کا کیا مستقبل ہو گا؟ یہ سوچنا بھی ماں باپ ہونے کے ناطے انہیں کا فرض ہے۔