تپتی دھوپ میں تھر کے متاثرین

Thar Children

Thar Children

خشک سالی کے باعث تھر میں جنم لینے والے حالات کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔تھر کی قحط سالی کی کہانی نے دکھ کے جذبے کو جھنجھور کر رکھ دیا ہے، ماں نے کس دل سے اپنے بچوں کو خالی پیٹ نیند کی تھپکیاں دی ہوں گی، کس طرح اپنے لخت جگر کو شہر خموشاں کی جانب بھیجا ہو گا۔ بھوک سے نڈھال بچو ں کی سسکتی ہوئی آوازیں دل کو دہلا دیتی ہے۔امداد سرگرمیاں جاری، مگر امداد صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے، دیہی علاقوں کے باسی اب تک صوبائی حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔

تپتی دھوپ اور کچی جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے متاثرین کی آنکھوں میں امید کی کرنیں بجھتی نظر آرہی ہیں، تھر کی خشک سالی کی سنگین صورتحال نے معصوم لوگوں کو جس اذیت میں مبتلا کر دیا ہے، اس کے ذمے دار اپنا احتساب کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اب تک وقت تک 33 ہزار 300 بوریاں گندم تقسیم ہوئی ہیں، ستائیس ہزار بوریاں گوداموں میں موجود ہیں۔ اس سے پہلے آٹھ ماہ میں گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم نہیں ہو سکی تھیں۔ قحط سالی کی اطلاعات کے بعد حکومت نے مزید ساٹھ ہزار بوریاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا، لیکن خود حکومتی اعداد وشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ابھی تک یہ گندم پہنچ نہیں سکی۔

اب ٹھیکیداروں کی مدد سے گندم کی تقسیم کی جا رہی ہے، جس کے لیے مختلف سینٹر بنائے گئے ہیں، لیکن موصول ہونے والی شکایات کے مطابق اس مفت تقسیم پر بھی ٹھیکیدار لوگوں سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے 1998 کی مردم شماری کے بجائے موجودہ آبادی کے تحت گندم کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت تھر میں دو لاکھ 59 ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں ہر گھرانہ دس سے پندرہ افراد اور بچوں پر مشتمل ہے۔ حکومت فی خاندان پچاس کلو گرام گندم فراہم کر رہی ہے، جو حکام کے خیال میں ایک ماہ کے لیے کافی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں صرف گندم کی تقسیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ سکوپ نامی تنظیم کے مقامی رہنما بھارو مل کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا، دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکیج کی ضرورت ہے۔ ‘لوگ روٹی کس سے کھائیں گے۔

Bilawal Bhutto Zardari

Bilawal Bhutto Zardari

حکومت کو اس کا بھی خیال کرنا چاہئے۔’ بھارو مل نے بتایا کہ تھر کے لوگ جانوروں کے دودھ پر گزارہ کرتے تھے مگر اب جانور بڑی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر کمزور ہیں، اس لئے لوگوں کو دودھ اور دہی دستیاب نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے۔ میڈیا کو میرے استعفی کا انتظار ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ تھرپارکر اور امداد دینے پر ان کے شکرگزار ہیں۔ آئندہ چھ روز میں تھرپارکر کے ہر گھر میں گندم پہنچ جائیگی۔ غذائی قلت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تھر میں ہلاکتوں کے ذمہ دار افسروں کو نہیں بخشا جائے گا ضلع سانگھڑ کی چار یونین کونسلوں میں بھی شدید خشک سالی سے قحط کے آثار ہیں، خوراک نہ ملنے اور بیماریوں کے باعث بکریوں اور بھیڑوں کی ہلاکتیں شروع ہو گئیں۔ پانی کی شدید قلت ہے، کنویں خشک ہو گئے ہیں۔ بارشیں ہونے کے باعث مویشیوں کا چارہ ناپید ہو گیا۔جماعة الدعوة پاکستان نے تھرپارکر کے قحط زدہ متاثرین میں ایک ماہ کے
خشک راشن کی تقسیم شروع کر دی۔ مٹھی و تھر کے دور دراز علاقوں میں بھی آٹھ مقامات پر فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ریلیف کیمپ قائم کر دیئے جبکہ ڈاکٹروں کی مزید ٹیمیں بھی مٹھی پہنچ گئی ہیں ۔ لاکھوں روپے مالیت کی ادویات کے ہمراہ تین موبائل میڈیکل ایمبولینسیں، 18 لاکھ مالیت کے خشک راشن پیک اور بچوں کے لیے دودھ، جوس، بسکٹ و دیگر سامان بھی کیمپوں میں پہنچایا گیا ہے۔

مٹھی، اسلام کوٹ اور ڈیپلو میں لگائے گئے امدادی کیمپوںمیں متاثرین میں پکی پکائی خوراک کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے جماعة الدعوة کی امدادی ٹیمیں ان علاقوں میں پہنچ گئیں جہاں ابھی تک کوئی اور ادارہ نہیں پہنچ سکا۔ دوردراز علاقوں سے لوگ امداد لینے کے لیے مٹھی تک کا طویل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالروف،جماعة الدعوة کے مرکزی ترجمان محمد یحییٰ مجاہد نے تھر کے سرحدی اور دور دراز علاقوں کا دورہ ، متاثرہ افراد سے ملاقاتیںکیں۔ رہنماء مٹھی، اسلام کوٹ اور نگرپارکراور کاسبوسمیت دور دراز سرحدی علاقوں میں گئے اور وہاں موجود متاثرین سے ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل سنے ۔اس موقع پر مقامی افرادان رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جماعة الدعوة وہ واحد جماعت ہے جو یہاں تک پہنچی ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے تھرپارکر کے قحط زدہ بچوں کے لئے خصوصی طور پر جوس، بسکٹ، دودھ اور دیگر اشیاء خورونوش تقسیم کی جا رہی ہیں اب تک دس ہزار سے زائد بچوں میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی جا چکی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریلیف کیمپوں میں بڑی تعداد میں بچوں کے لئے غذائی اشیاء کی فراہمی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ جماعة الدعوة کی امدادی ٹیمیں، امدادی رضاکار سول ہسپتال مٹھی میں زیرعلاج بچوں اور دیگر مریضوں میں بھی یہ اشیاء تقسیم کر رہے ہیں جبکہ متاثرین میں بڑے پیمانے پر منرل واٹر بھی تقسیم کیا گیا ہے۔

متاثرین کے لئے دیگر شہروں سے امدادی سامان کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔تھر پارکر میں قحط اور خشک سالی نے انسانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں جانوروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ تھر کے لوگوں کی زندگیوں کا زیادہ تر انحصار جانوروں پر ہوتا ہے۔

جماعة الدعوة کی سروے ٹیم کو تھرپار کر کے مختلف شہروں ڈیپلو، اسلام کوٹ، مٹھی، نگر پارکر، چھا چھرو اور کاسبو کے سروے کے دوران یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ مذکورہ علاقوں میں ایک پراسرار بیماری اور وائرس جس کو مقامی لوگ ماتا کی بیماری کہتے ہیں اس سے ہزاروں جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔ مرنے والے جانوروں سے بڑے پیمانے پر تعفن اٹھنے سے متاثرہ علاقوں میں مزید مہلک اور وبائی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

Thar People

Thar People

تھرپارکر میں خشک سالی اور قحط کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں این ڈی ایم اے امدادی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، مختلف جگہوں پر کولیکشن پوائنٹ بنا دیئے گئے۔ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکی ہے جو متاثرین تک خوراک و ادویات پہنچا رہی ہے۔ حکومت و دیگر فلاحی اداروں کو بھی بڑھ چڑھ کر متاثرین کی مدد کرنی چاہئے صرف دعوے اور دورے نہیں کرینے چاہئے۔

تحریر: محمد شاہد محمود