کسی علاقے میں زلزلہ آجائے، آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، انسانی اموات تھوڑی ہو ں یا بے شمار اسے قدرتی آفت کہا جائیگا، سونامی سے تباہی ہو یا آسمانی بجلی گرنے سے بربادی یہ بھی قدرتی آفت ہی کے زمرے میں آئیں گے، آسمان کی حدوں سے نکل کر کوئی شہاب ثاقب زمین کا تعاقب کرتا ہو ا آٹکرائے تو اس سے ہونے والے نقصانات بھی قدرتی آفت ہی کہلائیں گے، دنیا کے کئی علاقوں میں ہو ا کے بڑے بگولے کئی قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کا باعث بنتے ہیں، کسی بڑی سے بڑی دنیاوی طاقت کے پاس ان سے بچنے کی طاقت نہیں لہٰذاان میں انسانی بس نہیں چلتا اور انہیں بھی قدرتی آفت ہی شما ر کیا جائے گا۔
پاکستان بھی کئی مرتبہ ایسی ہی قدرتی آفات کے شکنجے میں آچکا، زلزلے، کئی مرتبہ قیمتی جانوں اور اشیاء کے نقصان کا باعث بننے والے سیلاب، بارشوں و آندھی کی تباہ کاریوں کا سامنا تو ہم ہر سال ہی کرتے ہیں ایسے تمام واقعات دراصل قدرتی آفت کہلانے کے لا ئق ہیں، اب ہنستے بستے پاکستان کے ایک علاقے تھر پارکر کا زکر کرتے ہیں 50 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ علاقہ صحرا و بنجر زمین پر مشتمل ہے،کم بارشوں والے اس علاقے میں نہری پانی کی عدم دستیابی کے باعث زراعت نہ ہو نے کے برابر ہے، مقامی افراد اس جدید زمانے میں بھی کوسوں دور سے پینے کا پانی بھر کر لانے پر مجبور ہیں، گندم، آٹا اور ضروری خوراک دوسرے علاقوں سے یہاں مہیا کی جاتی ہے، کسی صنعتکار یا حکومت نے اس علاقہ کی پسماندگی دور کرنے کیلئے یہاں انڈسٹری لگانے کا نہیں سوچا، مقامی افراد کا واحد ذریعہ آمدن جانوروں کی افزائش ہے جو کہ خوراک و پانی کی کمی کے سبب دوسرے علاقوں کی نسبت لاغر ہو تے ہیں اور نہ ہی ان میں ضرورت کے مطابق دودھ اترتا ہے، تھر کے مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانیں بھی موجود ہیں جہاں مقامی افراد مزدوری کرتے اور سندھ کے بااثر افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔
Thar Parker
اس میں کوئی شک نہیں تھر پارکر کے لوگ آج کے جدید دور میں بھی بالکل قدرتی ماحول میں قدرتی زندگی گذار رہے ہیں خواتین اب بھی غلامی کی یادگار کے طور پر زنجیروں کے جیسے زیور پہنے کاموں میں مصروف دکھائی دیتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں نے بھی اس پسماندہ علاقہ کو ترقی سے دور رکھا ہی بلکہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا، تھر میں موجود قحط اور اس سے ہو نیوالی 20 ہلا کتیں قطعاً قدرتی آفت نہیں اس کی ذمہ داری صرف اور صر ف حکمران طبقہ پر عائد ہو تی ہے، قدرت نے اس علاقہ کو جیسا بنایا حکمران طبقہ نے اسے بالکل ویسا اور جدید دور میں بھی پس ماندہ رکھا، آزادی کے 68 سال بعد بھی تھر کے انسان جانوروں کی طرح جوہڑوں میں جمع شدہ پانی پینے پر مجبور ہیں حکمران آج تک اس علاقہ میں پینے کے صاف پانی کا انتظام نہ کرسکے اور واٹر سپلائی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں پائی جاتی، اب بھی سروں پر 4،5 گھڑے اٹھائے قطاروں میں پانی بھرنے کیلئے جاتی ہوئی خواتین کی ویڈیوز بڑے فخر سے اپنا کلچر متعارف کرانے کیلئے دنیا بھر میں دکھائی جاتیں ہیں۔
نالائق حکمران ہمیشہ اپنی عیاشیوں میں تو مصروف رہے لیکن کبھی بیچارے عوام کا کسی سانحہ سے قبل انہیں خیال نہیں آیا،تھر میں قحط سے 20 ہلاکتیں ایک ہی روز میں نہیں ہو گئیں، وہاں اناج، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچانا حکومت سندھ کی ذمہ داری تھی، افسو س پیپلز پارٹی کی حکومت اس ذمہ داری سے عہدہ برا نہ ہو سکی اور عوام کو اس قدر بے بس و لاچار کر دیا کہ وہ بھوک سے مرنے پر مجبور ہو گئے، پاکستا ن کے امیر صوبہ میں بھوک سے ہلاکتیں عوام کیلئے الارم ہیں ایسا محسوس ہو نے لگا ہے یہ نااہل کسی بھی علاقے کو ”تھر ” بننے پر مجبور کر سکتے ہیںعوام کو ان کی نااہلی سے ہو شیار رہنا ہو گاتھر کا المیہ کسی بھی صورت میں پورے پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں دہرایا جا سکتا ہے، ایسے نالائق حکمرانوں میں سبق سیکھنے کی صلاحیت موجود ہی نہیں اور پہلے کی گئی غلطیاں بار بار دہرانا ان کا وطیرہ ہے، حکمرانوں میں تھوڑی سی بھی غیرت ہو تی توتھر سانحہ کے بعد ان کے سر شرم سے جھک جاتے مگر وزیر اعلیٰ سندھ کی تھر آمد پر ان کی 22 ڈشوں سے تواضح سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ان حکمرانوں کا شمار تعزیت کے بہانے میت والے گھر جا ککھانے کا انتظار کرنے والوںمیں ہے حسی کی انتہا کر دی گئی ایک طر ف خوارک نہ ملنے سے بچوں سمیت 20 لاشیں پڑی تھیں اور دوسری جانب ان کی عیاشیاں ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہیں۔
تھر پارکر میں ہلاکتوں کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے اسے قدرتی آفت قرار دیا جا رہا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بو لے میڈیا نے واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، بات کا بتنگڑ بنا دیا معاملہ اتنا بڑا نہیں جنتا بنا کر پیش کر دیا گیا، ندیم افضل چن کی سنیے اموات کے بعد انہوں نے ذمہ داری کا بوجھ بیوروکریسی پر ڈال دیااپنی حکومت کے حق میںڈنڈی مارتے ہو ئے اسے بے قصور قرار دے ڈالا، پنجاب میں اپوزیشن کے رہنماء شوکت بسرانے بے حسی کی انتہا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا اموات تو ہو گئیں اب اس پر سیاست نہ چمکائی جائے، یہ ہیں ہمارے حکمران جنہیں انسانی زندگیوں سے زیادہ اپنی سیاست عزیز ہے
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف معاملے کی سنگینی اور نزاکت جلد بھانپ گئے اور خود تھر جا پہنچے تو انتظامیہ حرکت میں آگئی گوداموں میں پڑی گندم کو تھر پہنچانے کا انتظام کیا گیا، ایک ارب امداد کا اعلان کرتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیا جبکہ سندھ کے نا اہل ترین وزیر اعلیٰ ایسے موقع پر بھی شکوئے شکائیتوں میں مصروف رہے، پیپلز پارٹی نے اگر اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہو تا تو ان کا دفاع کرنے کی بجائے ضرور انہیں تبدیل کرنے کا سوچتی لیکن شاید مزید ہلاکتوں کے بعد بھی ایسا نہ ہو۔
تھر میں انسانی زندگی کی ارزانی سے حکمرانوں کے ساتھ عوام کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہیں، انہیں جان لینا چاہے کہ تھر میں سنگین غلطیوں کے مرتکب حکمران انہیں حقوق دینے میں ناکام ہو چکے ہیں، حتی کہ زندہ رہنے کا حق بھی دینے کو تیار نہیں، ان کی نااہلیوں کی بدولت سانحات اپنے ظالم جبڑے کھولے عوام کا انتظار کر رہے ہیںاور یہ اپنی عوام کا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔