قارئین محترم ! سچ ایسی کڑوی ڈش ہے جو کھانے کو دل نہیں کرتا اور اگر کھا لیں تو یہ کم بخت ہضم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور سچ دشمنی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ِبیج بھی ہے بقول شاعر : قرض غم کا چکانا پڑا ہے،رو کے بھی مسکرانا پڑا ہے،سچ کو سچ کہہ دیا تھا اسی پر،میرے پیچھے زمانہ پڑا ہے۔ خدا بخشے والد مرحوم نے ہمیشہ سچائی کے راستے پہ چلنے کا ہی درس دیا تھااس لئے ہم تو ننگے پاؤں چلنے والے لوگ ہیں۔اور ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ہم زندگی کی آسائشیوں کے پیچھے بھاگنے والے یا خواب دیکھنے کے قائل ہی نہیں ہیں، بلکہ ہم تو قناعت پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔اور یہی ہمارا قیمتی سرمایہ بھی ہے۔ کہ ہماری کھری تحریروں سے سچ کو نہ ہضم کرنے والے اکثر ہم سے ناراض ہی رہتے ہیں، سچ تو کہیں بھی ہضم نہیں ہوتا مگر آج ہم خصوصاً دیار غیر میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی میں موجود اُن لوگوں کا ذکر کریں گے جو حقیقتاً سچ کا ساتھ چھوڑ چُکے ہیں اور خود کو عوامی نمائندے کہنے والے اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں ان لوگوں کے لیے پاکستانی کمیونٹی کا درد کوئی اہمیت نہیں رکھتا ایسے لوگ اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے اپنے ہی بھائی کا نقصان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ان کا بنیادی مقصد صرف اور صرف عوامی ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے نا اہلیت کے باوجود بھی اپنے آپ کو کام یاب سیاست دان گردانتے ہیں۔ سیاست کی بات چلی ہے تو سیاست پر تھوڑی بات کرتے ہیں کسی بھی معاشرے میں ایک کا میاب سیاست دان ہونے کے لیے وہاں کی مقامی زبان اور بنیادی چیزوں سے آگائی ضروری ہے مگر جن حضرات کی ہم بات کر رہے ہیں وہ اس سچ کو بھی تسلیم نہیں کرتے ، مثال کے طور پر بیرون ملک دو پاکستانی بلدیاتی انتخابات میں عوام کی خدمت کا عزم دل میں لیے کھڑے ہوتے ہیں اب ان میں سے ایک مقامی تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگری یافتہ بھی ہے مقامی زبان سے مکمل آشنا بھی جوان بھی اور حوصلہ مند بھی مگر دوسری جانب صورتِ حال بلکہ اس کے برعکس ہے اب آپ ہی انصاف کریں کون اہل ہے اور کون نا اہل مگر اس حقیقت کو تسلیم کرئے بھی تو کون ۔ کیونکہ بقول شاعر (کم سخن ہوں مگر بات صاف کرتا ہوں ،منافقوں سے کھلا اختلاف کرتا ہوں ،بت پرستی میرا منسک نہیں ،خدا پرست ہوں ہوں یہ اعتراف کرتا ہوں اب سیاست جیسا مقدس پیشہ دھندے اور کاروبار کا روپ اختیار کر چکاہے اور جب کوئی چیز دھندا بن جائے تو اس میں دھندے والے سارے عوامل یکجا ہو جاتے ہیں جس کا واحد مقصد مفادات کا تحفظ ہو تا ہے۔دھندہ ایک ایسی بلا کا نام ہے جس کا مدعا صرف اور صرف مالی منفعت ہو تاہے۔اس میں اصول پسندی،قدروں اور جذ بوں کی صداقت نہیں ہوتی ۔ اگر قدریں سیاست کی پہچان بن جائیں گی تو پھر یہ دھندا نہیں رہتا بلکہ عبادت بن جا ئے گا ۔ سیا ست بنیادی طور پر خد متِ خلق جیسے انتہائی بلند مقصد کا نام ہے لیکن چند نا عا قبت اندیش سیا ستد انوں نے اسے تجارت کا روپ بخش دیا ہے۔،۔ پرانے وقتوں میں سیاست ایک عبادت کا درجہ رکھتی تھی بالکل مذہبی رسومات کی طرح لیکن جب سے یہ دھندا بن گئی ہے تب سے معاشرہ د ھیرے دھیرے تباہی کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ مستقل اقدار اور اخلاقی رویوں پر کیفیتِ مرگ طاری ہے۔سیانوں کا قول ہے کہ دھندے کا منطقی نتیجہ افرا تفری اور بے چینی ہوتا ہے اور یہی آج کل ہمارے معاشرے کا طرہِ امتیاز بنا ہوا ہے کیونکہ مقصدِ سیاست صرف حصولِ دولت رہ گیا ہے۔ کارپورشین یا اسمبلی کا ممبر بننے کے حصول کے بعد عوام کا درد دل سے یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پاکستانی کیموںٹی کے تمام مسائل کرنے کا دعویٰ کرنے والے کھبی کشمیری لیڈر بن جاتے ہیں کبھی انتخابات میں خود کو عوامی نمائندہ کہنے لگتے ہیں جبکہ بیرون ملک میں پروان چڑھنے والی پاکستانی نسل ان لیڈروں کو گھاس تک نہیں ڈالتی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے لوگوں کو بے نقاب کیا جائے اور سچ کا ساتھ دیا جائے کیونکہ سچ کا ساتھ دینے والے کبھی بھی انصاف سے نا اُمید نہیں ہوتے ؟ بقول شاعر : انصاف کے مندر میں یہ بیٹھے ہوےٗ منصف ،مظلوم کو قاتل کی سزا بول رہے ہیں، تو سمجھے نہ سمجھے ہمیں اس دور میں تو کیا،ہم وہ ہیں جو ہر دور میں انمول رہے ہیں۔!!! اس پر مزید روشنی اپنے آئندہ کالم میں ضرور ڈالوں گا۔