رائے ونڈ سے بنی گالہ تک

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

راستے تو وہ یقینا کٹے پھٹے تھے مگر ان آڑے ترچھے راستوں پر چل کر آنے والے مہمان اور اس کے میزبان نے مئی ٢٠١٣ کی تلخیاں ختم کر دیں۔ یہاں کہنا غلط نہ ہو گا کے کل پاکستان کے ٹائر میں ایک نئی ٹیوب ڈالی گئی ہے۔میاں نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کی ہی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ بنی گالہ کی چوٹی پر بیٹھے میانوالی کے نیازی پٹھان کو یقین دہانی کراتے کہ پاکستان کی گاڑی آپ کے بغیر نہیں چلے گی۔اندیشوں خدشات اور کسی ڈرائونے خواب کی طرح پاکستان پریشان تھا۔یہ بات تو سچ ہے کہ بنی گالہ میں مہمان نوازی کم ہی لوگوں کی ہوتی ہے اور تو اور امریکی سفیر کو بھی بند بسکٹوں کے ڈبے پیش کئے جاتے رہے ہیں۔

یہاں میاں نواز شریف کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھا گیا اور لاہوری کھابے کھانے والے مہمان کو بساط بھر کھلایا گیا۔این اے ٥٦ کے ہیرو نے پتہ نہیں گراٹو کھالائی یا نہیں مگر ان کے بیانات کی مٹھاس سے پاکستان میٹھا میٹھا سا ہو گیا ہے۔ اس پہلی ملاقات میں ضرور کوئی ایسی بات ہوئی ہے جووطن عزیز کے مستقبل سے مایوس چہروں پر ایک رونق سی لے آئی ہے۔ہمیں یہ تو نہیں علم کہ اس ملاقات کی تفصیلات کیا ہیں مگر عمران خان کے پاس وزیر اعظم کا چل کر ہی جانا اپنے اندر بہت سی تفصیلات رکھتا ہے۔ عمران خان طالبان ایشو پر ایک خاص مو ئقف رکھتے ہیں اور اپنی اس سوچ پر ایک عرصے سے قائم ہیں کہ سارے طالبان برے نہیں ہیں اور وزیرستان میں بغیر ضروری اقدامات کے جانا پاکستان کے لئے اچھا نہیں ہے۔پاکستانی وزیر اعظم بھی مان گئے ہیں کہ اچھے اور برے طالبان کو ایک چھاننی سے گزار کر الگ کرنا ہے۔اس کے لئے پشاور میں دفتر کی پیشکش کرنا صیح فیصلہ ہے ۔دہشت گردی سے سب سے زیادہ متآثر ہونے والے صوبے کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے اس بیان سے اختلاف کرنا مشکل ہے کہ مذاکرات اگر کرنے ہیں تو وہ کسی غار میں تو نہیں کئے جا سکتے۔

Chaudhry Nisar Ali Khan

Chaudhry Nisar Ali Khan

میاں نواز شریف کے ساتھ چودھری نثار علی خان بھی تھے جو عمران خان کے اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ملکی امن کی ذمہ داری انہی پر عاید ہوتی ہے اور انہوں نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ کسی کو منا لینا اچھی بات ہے ۔ایسے میں کون جیتا اور اور کس نے ہار مانی ۔اس ملاقات کو اس پیمانے پر ماپنا کوئی درست کام نہیں ہو گا۔اصل میں پاکستانی جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی ہے۔بہت سے لوگ کسی اٹ کھڑکے کے منتظر تھے ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں ہمیشہ لڑتی رہیں گی اور ان کا کام چلتا رہے گا۔جدہ کے سرور پیلیس میں متعدد بار میاں صاحب سے ملاقاتیں رہی تھیں اور جو تآثر لیا تھا وہ یہ تھا کہ میاں صاحب سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان آمد کے بعد کئی بار ایسا ہوئے کہ ہم کہنے پر مجبور ہوئے کہ میاں صاحب گاڑی کچے پر اتارنے کے عادی ہیں اور الٹانے کے موڈ میں ہیں لیکن کل کی ملاقات نے ان خدشات کو قدرے کمزور کیا ہے۔

ہم اسے اچھی ابتداء کہہ سکتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ عمران خان نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ دونوں طرف خواہش تھی کہ ملک کو بد امنی سے نکالا جائے۔اس میں یقینا وہ قوتیں ہاری ہیں جو ذرا سی مشکل پیدا ہوتے ہی فوج فوج کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔میاں صاحب پیپلز پارٹی سے میثاق جمہوریت کر چکے ہیں۔انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دو قدم آگے بڑھ کر تھاما ہے اور اپنی اخلاقی ویلیوز کا مظاہرہ کیا ہے۔عمران خان نے اپنی ثابت قدمی سے پاکستانی قیادت کی سوچ کو بدل کے رکھ دیا ہے کہ فوجی آپریشن ہی کوئی حل نہیں۔اور اگر ہے بھی تو سوچ سمجھ کے کرنا ہو گا۔

رحیم اللہ یوسف زئی ایک سینئر صحافی ہیں پتہ نہیں انہوں نے کس تناظر میں کہا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں۔اللہ نہ کرے ایسا ہو اگر ایسا ہے تو منصف وقت جمہوری قوت کے حق میں فیصلہ دے گا اس لئے جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں آزاد ہونے والا پاکستان جمہوریت ہی چاہتا ہے۔حضرت قاید اعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا تھا کہ فوج جمہوری حکومت کے طابع ہو گی۔اور اس پر سابق چیف آف آرمی سٹاف نے بڑی دلیری کے ساتھ عمل بھی کیا۔وہ حلقے جو فوج اور جمہوری حکومت کو آمنے سامنے دیکھنے کے خواہش مند ہیں وہ پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہے۔پاکستان کی فوج نہ صرف جغرافیائی بارڈروں کی محافظ ہے اس نے داخلی مصیبت کے وقت پاکستانی عوام کو اکیلے نہیں چھوڑا۔

ہمیں یہ تو نہیں علم کے اس موضوع پر پاکستان کے قد آور سیاست دانوں نے کوئی بات کی ہو گی لیکن اتنی ضرور خواہش ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی ٹیوب کو عسکری کیل سے پنکچر نہ لگایا جائے۔ مذاکراتی ٹیم نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اب مذاکرات ایک نئے فیز میں داخل ہو رے ہیں۔اس موقع پر اس قسم کی قیاس آرائیاں کرنا کہ عمران خان نے یو ٹرن لیا ہے مناسب نہ ہو گا البتہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں نے رائٹ ٹرن لیا ہے۔کبھی کسی وقت رات کے آخری پہر جب آپ تھک ہار کے سرہانے پر سر رکھتے ہیں تو یقینا آپ نے سوچا ہوگا کہ جب آپ نے آنکھ کھولی تو پاکستان کیسا تھا اور آج اپنی دوسری نسل کو کیسا پاکستان دے رہے ہیں۔اس گوشوارے میں خسارہ ہی خسارہ دیکھا ہو گا۔کیا میرے بچوں اور ان کے بچوں کا حق نہیں کہ انہیں بھی پر امن پاکستان ملے۔اس پر امن پاکستان کے لئے پاکستانیوں کو متحد ہونا ہو گا۔

الیکشن کے جگھڑے اپنی جگہ ٣٥ پنکچر کی باتیں ہوتی رہیں مگر سیاست دانوں کو سر جوڑ کر ضرور بیٹھنا چاہئے۔نیل کے ساحلوں سے کاشغر تک کے اتحاد تب ہی بن سکتے ہیں جب ساحل کراچی سے باب خیبر تک ہم اکٹھے ہوں۔پہلی ملاقات میں کھل کے بات تو نہ ہوئی ہوگی مگر بنی گالہ کی پہاڑی پر جو منظر اس روز تھا اس سے پورے پاکستان کو خوشی ہے۔یقینا اس راستے میں پتھر ہی پتھر تھے مگر پاکستان میں امن و آشتی کے چاہنے والوں کے لئے اس کہکشاں میں کئی رنگ تھے۔ترقی و خوشحالی کے رنگ،محبت اور بھائی چارے کے رنگ۔اللہ کرے یہ رنگ صرف رائے ونڈ سے بنی گالہ تک ہی نہ چھائے رہیں بلکہ اس جنوب مغربی ایشیا پر ایک تبدیل پاکستان کا رنگ ثابت ہوں۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری