پاکستان میں موجود تھر اور چولستان دونوں صحرائی علاقے ایک دوسرے سے بہت مطابقت رکھتے ہیںجن کی آب وہوا ایک جیسی ہے۔ ان صحرائی علاقوں میں لوگوں کے گزربسر کا سبب انکے مال مویشی ہوتے ہیںاور بارش شازونازر ہی ہوتی ہے جس وجہ سے اکثر خوراک اور پانی کی قلت کا سامنارہتا ہے اور انتظامیہ کے لیے پانی اور خوراک کی قلت کو پورا کرنے کے لیے چاک و چوبند رہنا ضروری ہوتاہے لیکن تھر میں نااہل انتظامیہ کے باعث ان دنوں ایک شدید قحظ برپا ہو چکا ہے تھر پارکر کے 2365اضلاع میں لوگ پانی کی بوند بوند اور گندم کے دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔
گھروں میں موجود عورتیں بچوں کو بہلانے کے لیے خالی پتیلیاں تو چولہے پر چڑھا دیتی ہیں لیکن ان برتنوں کو چولہے پر چڑھانے کا مقصد سوائے بچوں کو دلاسہ دینے کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا،جن علاقوں میں تعینات سرکاری آفیسر اعلی حکومتی شخصیات کے بچے ہوں ،اور انکی تعیناتی میرٹ کی بجائے سفارش پر ہوئی ہو،وہ لوگ اکثر اوقات اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیںکیونکہ وہ اس عہدے کے قابل ہی نہیں ہوتے اور ان کی ناجائز تعیناتی میں قحط جیسی آفت کا برپا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔
تھرپارکر میں 150سے ذائد معصوم بچوں اور سینکڑوں جانوروں کی موت کا سبب بھی یہی سفارشی بھرتی ہونے والے آفیسر ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ ان سرکاری آفیسرز کو کنڑول کرنے والی صوبائی گورنمنٹ کی نااہلی بھی اب کسی سے ڈھکی چھی نہیں رہی۔ کیونکہ اسی گورنمنٹ کے وزیر خوراک قحط آنے کے باوجود دوبئی میں موجود تھے اور ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے گھروں میں گندم پہنچانا میری ذمہ داری نہیں۔
اسی قحط کے میڈیا میں خبر آنے سے کچھ روز پہلے اس علاقے کے سائیں بلاول بھٹو زرداری یہاں پر سندھ فیسٹیول مناتے رہے۔سائیں کو اس علاقے کی ثقافت بچانے کا تو بہت خیال ہے لیکن اس ثقافت میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کی پروا ہ کیوں نہیں۔ایک طرف سندھ فیسٹیول تو دوسری طرف بے بسی کی تصویر بنے بھوکے پیاسے تھر کے لوگ،یقینا انسانیت اس تمام واقعے پر شرمندہ ہے ہمیں سندھ فیسٹیول پر کوئی اعتراض نہیں۔لیکناس فیسٹیول کے ساتھ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ اور صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنا سائیں کی پہلیترجیح ہونی چاہیے تھی۔اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں ایسی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہیں اور پہلے بھی کئی بار مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث کئی بار ان علاقوں میں قط آ چکے ہیں۔
Sindh Government
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کے مطابق 17 دسمبر 2013 کو DCOکی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں ڈسی سی او نے بارشوں کے کم ہونے کا ذکر کیاتھا۔حیرانگی ہے سندھ گورنمنٹ پرجس کو دسمبر ہی میں قحط کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا لیکن میڈیا کے شور مچانے سے قبل سرکاری مشنری نے حرکت میں آنا مناسب نہ سمجھا۔او رتھرپارکر میںگورنمنٹ کے ایکشن میں آنے سے قبل ہی 120 کے لگ بھگ معصوم بچے زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔
تھر کے ڈپٹی کمشنر کے پاس 50 ہزار سے زائد گندم کے بوریاں موجود تھیں۔لیکن گندم کو سجا کر گوداموں میں رکھ دیا گیا اور لوگوں میں گندم بانٹنا گنورا نہ کیا گیا۔اور ڈپٹی کمشنر کی اس کوتاہی کی وجہ سے تھرپارکر اور اسکے ملحقہ علاقوں میں پانی کے ساتھ ساتھ خوراک کا قحط بھی شروع ہوگیا۔اطلاعات کے مطابق جیسے ہی بلدیاتی الیکشن کا شور شروع ہوا۔ لوگوں کے گھروں میں گندم کی پرچیاں بجھوائی جانے لگیں لیکن عملی طور پر گندم کی فراہمی کو لوگوں تک یقینی نہ بنایا جا سکا۔
آج پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بہت اعتماد سے کہتے ہیں کہ مرنے والے تمام بچے قحط کی وجہ سے نہیں مرے ،بلکہ ان میں سے بہت سے بچے نمونیا اور مختلف بیماریوں کے باعث مرے، قحط کے باعث مرنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے اور شرجیل میمن کے مطابق تھر میں پیدائشی طور پر کمزور بچوں کی پیدائش ایک فطرتی عمل ہے اس وجہ سے بھی بہت سے بچے مرجاتے ہیں لیکن سندھ گورنمنٹ کے مطابق جن بیماریوں کے باعث ان بچوں کی موت ہوئی کیا وہ قابل علاج بیماریاں نہیںتھیں، یا ا ن بیماریوں کے لیے صحت کی بروقت سہولیات فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری نہیں، یالاکھوں کی آبادی کے ضلع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں صرف 75بیڈز کی گنجائش ہونا قابل شرم عمل نہیں۔
اب ایک اور آنے والی آفت کے بارے میں بتاتا چلوں ،تھر میں چکن پوکس کی بیماری سے بچنے کے لیے تھرپارکر میں(120000)ویکسین تو کافی عرصہ پہلے پہنچادی گئیںتھیں۔لیکن ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے مقامی ملازمین کی جانب سے ایک بھی ویکسین کسی بچے کو نہ لگ سکی۔اب تھرپارکر میں موجود قحط سالی کے ساتھ ساتھ بچوں میں چکن پوکس کی بیماری میں بھی اضافے کا خطرہ بڑھ چکا ہے اور تیزی سے اسکے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت کا کام صرف اشیاے ضرورت مہیاکرنا نہیں بلکہ مہیاکئی گئی اشیاء کو لوگوں تک پہنچانے کے عمل کی نگرانی بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
خدارا ! سندھ حکومت اپنی ذمہ داریوںکوصیح معنوں میں سمجھے۔یقینا تھر میں آنے والے قحط کی ایک بڑی وجہ تھرپارکر کے سرکاری عہدے داروں کے آپس میں روبط نہ ہونا ،اور دوسری وجہ حکو مت کی طرف سے چیکنگ کے مناسب انتظامات نہ ہونا ہے۔اگر تھر اور چولستان میں بارشوں کا تناسب ایک جیسا ہے تو تھر میں قحط کا آنا اور چولستان میں حالات معمول پر رہنا تو واقع ہی تھر کے سرکاری اداروںکی لاپرواہی ہے تھر کی تمام سرکاری مشینری کو چولستان کی سرکاری مشنری سے سبق سیکھنا چاہیے اگر سندھ حکومت سندھ کے قدیم علاقوں میں سندھ فیسٹیول کا انعقاد کر سکتی ہے تو انکے لیے تھرپارکر کے علاقوں میں قحط جیسی آفت پر قابو پانہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔
ابھی تک تھرپارکر گردونواح کے بہت سے دیہا توں میں گندم اور امدادی سامان نہیں پہنچ سکا۔جس کی ایک وجہ ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہے کیونکہ مقامی ٹرانسپورٹ سندھ حکومت کو گاڑیاں دینے کو ہی تیار نہیں۔( اطلاعات کے نطابق) سندھ حکومت کئی کئی مہینے ٹرانسپورٹڑ کے بل ادا نہیں کرتی لیکن اس مشکل گھٹری میں پوری قوم کو ایک ساتھ تھرپارکر کے مصیبت ذدہ لوگوں کی مدد کرنا ہوگی۔وہ چاہے ٹرانسپورٹر بھائی ہوں یا صنعتی مالکان ،نوکری پیشہ افراد ہوں یا طالب علم،ہم سب کواس مصیبت کی گھڑی میں تھرپارکر کی مایوس عوام کی مدد کرنا ہوگی۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے تھرپارکرکا دورہ اور ایک عرب امداد کا اعلان، کے پی کے کی حکومت کی جانب سے دس کروڑ کا اعلان ،پنجاب اور بلوچستان سے اندادی سامان کا جانا ،معروف بلڈرز ملک ریاض کی جانب سے 20 کڑور کا اعلان اور ڈاکڑوں کی ٹیموں کا جانا۔بہت سی فلاہی تنظیموں کے رزاکاروں کا پہنچنا،ایک خوش آئند عمل ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے میڈیکل کیمپوں کا قیام اور امدادی سامان کا بجھوانا بھی قابل تعریف ہیلیکن ابھی بھی تھرپارکراور اس کے ملحقہ دیہانوں میںبہت سی اندادی اشیاء کی ضرورت ہے جن کی ہم نے ہر ممکن مدد کرنی ہے جس طرح زلزلہ کی مشکل گھڑی میں ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ تھے۔اور آخر میں سندھ اور کے پی کے کی کچھ نام نہاد سیاسی جماعتوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ آج بھی کالا باغ ڈیم کی اہمیت کو سمجھیں ۔اگر آج ان سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی کے باعث کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ رکی ہوتی توشاید تھر کے لوگوں کو پانی کے قحط کے سامنہ نہ ہوتا اور وہاں پر موجود زمینیں ہری بھری ہوتیں۔
Abdul Rauf Chouhan
تحر یر : عبدالروف چوہان ای میل : chouhan201259@yahoo.com فون نمبر : 03057300200