ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے قوم کو یہ خبر ایک خوشخبری کی صورت میں سنائی کہ پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر 110 سے 97 تک آگیا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک خوشکن احساس ہے کہ ہمارے ملک کی کرنسی کو استحکام ملا ہے۔ زرمبادلہ کے زخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں کا بوجھ بھی کسی حد تک کم ہوگا۔ اور ملک کی مجموعی معیشت میں بہتری آئے گی۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ اس سے غریب اور غربت کے بوجھ تلے دبے بلکہ پسے ہوئے طبقے کو بھی کچھ ریلیف ملے گا یا نہیں۔ پٹرول گیس اور اشیائے ضرورت کی چیزوں میں بڑھتی ہوئی ہوش ربا قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوگی یا نہیں۔ بازار میں بکنے والا سستے سے سستا ککنگ آئل بھی ابھی 120 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت 98 تک پہنچ چکی تھی۔ پھل فروٹ اور دال کا وہی ریٹ چل رہا ہے ۔پٹرول کی پرانی قیمتیں برقرار ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کے باوجود قیمتیں اپنی پرانی سطح پر ہی برقرار ہیں۔
روپے کی قدر استحکام کو گزرے ابھی دو دن ہی ہوئے ہوں گے کہ ڈالر نے ایک دفعہ پھر اپنا رنگ ڈھنگ اور جوبن دکھانا شروع کر دیا ہے۔ کھینچ تان کر ڈالر کو حکومت 97 تک تو لے ہی آئی مگر پھر اس کے اونچی اڑانیں شروع ہو گئی ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر اب عوام میں پایہ جاتا ہے کہ حکومت کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کا سوچ ہی نہیں سکتی اور نہ ہی عوام کے فلاح کے منصوبے بنا سکتی ہے۔ اگر ڈالر کی قدرمیں روپے کے مقابلے میں کمی آتی بھی ہے اور ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ بھی ہوتا ہے تو اس کا فا ئدہ ایک عام اور غریب طبقے کو کیسے ہو سکتا ہے۔ غریب کو سکون اور سکھ کا سانس تو تب آئے گا جب روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوگی اور مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا۔
Dollars
عوام کے اس تاثر کو بھی کسی حد تک تقویت ملی ہے کہ ڈالر کی جو کمی پچھلے دو دن میں دیکھنے کو ملی ہے یہ سب حکومت کا گورکھ دھندہ امیروں کے چونچلے اور کوئی بڑی چال ہے۔ جس میں عوام کو بس دور سے ہی گھی اور مکھن دکھا کر خوش کر دیا گیا ہے۔ تیل کی قیمیتں تو ویسے بھی جوں کی توں برقرار ہیں۔ ایک غریب کے لئے اگر یک لیڑ تیل کی قیمت 120 سے کم ہوکر 100 تک بھی آتی ہے تو اس سے بچارے کو کیا ریلف ملا۔ وہ تو آگے ہی مشکل سے گزارا کر رہا ہے۔
ڈالر کی قدر میں کمی کا تو یہ وقتی ڈرامہ تھا جو بہت خوبصورتی سے رچایا گیا۔ دوست ملک سے ملنے والے ڈالر کہاں استعمال ہوں گے؟ شاید اس بات میں کسی حد تک صداقت ہو کہ ملنے والی یہ رقم طالبان پر خرچ کی جائے اور انھیں دوسرے ممالک کی جہادی سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگردوست ملک سے ملنے والے ڈیڈھ ارب ڈالر اور پھر اس کے فورا بعد عمران خان کی نواز شریف کو اپنے گھر دعوت اور طالبان کے مسلہ پر اتفاق رائے اور پھر ہیلی کاپٹر پر طالبان سے ملنے جانا۔ کیا دال میں کچھ کالا ہے یا کہ پھر پوری دال ہی کالی ہے۔ اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا۔ مگر ایک بات تو واضح ہے کہ اس سارے گورکھ دھندے میں عوام کو ریلیف اور سکھ کا سانس لینے دینا شاید کسی بھی حکومت کے پیکیج اور ترجیح میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔