خداتعا لیٰ پر ہمارا یقین اس قدر ضیعف ہو چکا ہے کہ ہم اپنے کام نکلوانے کے لئے خدا کی بجائے بندوں کے سامنے جھکنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں پاکستان دُنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ہر گلی، کوچے میں عامل ہی عامل ملتے ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی شہرایسا ہو جس کی دیواروں پر ان کے اشتہار آویزا ںنہ ہوں۔ اسکول ہوںیا کالج ، یونیورسٹی ہو یابازار، ان کی پبلک سٹی کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کا کوئی مسلہ ہو، کوئی رکاوٹ ہو پل بھر میں حل کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر تعجب کی بات ہے کہ خود کے مسلے حل نہیں کر پاتے۔ ملکی اخبارات اٹھا لو یا نیٹ ، کیبل دیکھ لو ان کے اشتہار ملتے ہیں۔ یہ واحد مخلوق ہے جو فٹ پاتھوں، گٹروں میں، درباروں، مزاروں ، سیمنا گھروں میں، ملتی ہے۔ کوئی ننگے پیر سے مشہور ہے تو کوئی بنگالی بابا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوئی کدو پیر ہے تو بینگن پیر۔ جس طرح سبزوں کی اقسام ہوتی ہیں ان کی بھی مختلف نسلیں پائی جاتی ہیں۔
آپ کی بیوی روٹھ گئی ہے تو منا دیتے ہیں چاہے خود کی بیوی کسی کے ساتھ بھا گ جائے۔ جدید عاشقوں کے لئے کسی لاٹری سے کم نہیں ہیں۔ محبوبہ نہیں مان رہی، یا وہ کسی اور کی اسیر ہو رہی ہے تویہ ان کے قدموں میں لانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کاروبار میں رکاوٹ ہے، نوکری کی تلاش ہے، دشمن کو اپنا غلام بنانا ہے، تو ان عاملوں کے پاس تشریف لے جائیں۔بنا سوچے بنا سمجھے اپنی تمام جمع پونجی ان کے حوالے کیجئے۔
بیچارے خود فٹ پاتھوں پر خاک چھانٹے ہیں، مگر خدمت خلق کر رہے ہیں۔ جن کو اپنی قسمت کا علم نہیں آپ کی قسمت کا حال ضرور بتائیں گے۔ جن کے محبوب کسی اور کی بانہوں میں جھول رہے ہوں آپ کے محبوب قدموں میں لا کھڑا کرنے کی طاقت ضرور رکھتے ہیں۔
Islamabad
اسلام آباد کے ایک ایسے ہی پیر کا انکشاف ہوا ہے ، جو ننگے پیر کے نام سے مشہور ہے ، جس کے بدن پر کپڑے کا نام و نشان نہیں ہے ، جاہل عورتیں اس کے اردگرد جمع ہیں اور اپنے شوہروں کو قابو کرنے کے لئے تعویذ بنوارہی ہیں۔ویڈیو دیکھتے ہی میں ششدر رہ گیا۔ کیا ہو گیا ہے ہمارے مسلم معاشرے کو، کن راستوں کے مسافر بن گئے ہیں۔ عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ جن کی خود کی مرادیں پوری نہیں ہوتی ان سے من کی مرادیں پوری کرواتے پھرتے ہیں۔ گھر کے زیور تک ان کی ہتھیلی میں رکھ دیتے ہیں۔ قرآن جو مشعل راہ ہے، اسے بھول بیٹھے ہیں۔ خدا کو بھول کر خدائی مخلوق کے پیروکار بن گئے ہیں۔ اس رب کے حضور جھکنے سے شرماتے ہیں جو رزق عطا کرتا ہے۔ عورتیں تو عورتیں ٹھہری، مرد حضرات بھی ان کی جوتاں چومتے پھرتے ہیں۔
پڑھے لکھے جاہل ہیں، اپنے بچوں کا رزق ان کو کھلا رہے ہیں۔ حکومت ہو یا ذمے دار ادارے ان جعلی عاملوں کے خلاف کچھ نہیں کر پا رہے۔ کئی سیاسی چہرے تو خود ان کے گن گاتے پھرتے ہیں۔ سیاسی توڑ جوڑ کے لئے ان سے مد د لی جاتی ہے۔
مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی عامل بن بیٹھی ہیں۔ جن کو پاک ناپاک کی تمیز نہیں ہے وہ دوسروں کی قسمت سنوارنے میں لگی ہیں۔ کوئی بیوہ عامل کے نام سے مشہور ہے تو کوئی کنواری عاملہ کے نام سے، کوئی بنگالی ہے تو کوئی انڈین مگر مسلمان کوئی بھی نہیں ہے۔ مسلمان اپنے مسلمان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ جس کے ہاتھ، پائوں سے دوسروں کو تکلیف ہو وہ مسلمان کیسے ہوسکتا ہے۔ بنگالی عامل سے یاد ہے پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں ایشیا کپ کا کرکٹ میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے مدمقابل بنگلہ دیش تھا۔ کیمرے والے نے وہ وہ نظارے دیکھائے کہ عقل حیران ہو گئی۔بوم بوم آفریدی کھیل رہا تھا۔ ادھر بنگال کے عامل اپنے اپنے منتر پڑھنے میں لگے ہوئے تھے۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ مناظربار بار دیکھائے۔ انہوں نے آفریدی کو تو منتر کر کے روک لیا۔
بیچارے انجری کا شکار ہو گئے مگر ٹیم کو شکست سے بچا گئے۔ بے شک ان کے ساتھ پاکستانی عوام اور چاہنے والوں کی دعائیں تھی۔ رب کی رحمت ان پر برس رہی تھی۔ جن کو رب پر بھروسہ ہو منزل ان کے قدم چومتی ہے۔ بنگالی عامل ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پاکستان جیت گیا۔
پاکستانی بیشتر عوام ان جعلی عاملوں پر یقین کرکے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتی ہے۔ ان عاملوں کا زیادہ تر عورتیں شکار ہو تی ہے۔ بیچاری اپنی قسمت بدلنے کے چکر میں اپنی عزت تک گنوا آتی ہیں۔ نہ بگڑے کام ٹھیک ہوتے ہیں نہ عزت رہتی ہے۔ پچھتاوے کی آگ میں گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہیں۔
حکومت کو چاہے ان پر ایسا اسپرے کرے کہ پھر سے ان کی نسل کا کوئی عامل پاکستان کی سرزمین پر نظر نہ آئے۔ پاکستانی عوام کو بھی چاہے مسلم ہونے کے ناطے رب کریم اور اس کی عطاکردہ کتاب (قرآن مجید) پر عمل کرے۔ جس میں موت کے علاوہ ہر مرض،ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ ہر مسلے کا حل موجود ہے۔ ان جعلی عاملوں کے جعلی باتوں میں آکر اپنا ایمان خراب نہ کریں۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی لوگوں کو بھی چاہے کہ ان جعلی عاملوں کو ختم کریں۔ ورنہ حکومت کے ساتھ مل کر ان عاملوں سے پاکستان بدحالی کا حل نکلوائیں۔
ان عاملوں کو کہے کہ پاکستان میں بجلی نہیں ہے۔ گیس نہیں ہے۔ پانی کی قلت ہے، غریب بھوک سے مر رہے ہیں۔ محبوب قدموں میں لانے کی بجائے ان گھروں میں بجلی فراہم کریں۔ ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ان کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ کوئی ایسا عمل، کوئی ایسا منتر کریں،ان کے بچے سیر ہو کر کھانا کھا سکیں۔ پاکستان سے غربت ختم ہو جائے۔ پاکستان جس کا بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ قرض سے نجات مل جائے۔اگر ایسا کر سکتے ہیں تو پھر پاکستان کی ہر سڑک ،ہر محلے ،ہر گلی میں بیٹھ کر اپنے منتر کریں ورنہ اس وطن سے دور بہت دور چلے جائیں۔ کیونکہ اس وطن کی عوام پہلے بھی بہت سے مسائل میں گِری ہوئی ہے مزید ان کے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ ان کے محبوب قدموں میں نہیں آتے نہ آئیں،ان کی قسمت نہیں سنوارتی نہ سنورے مگر اپنے یوں ان کو نہ لوٹا جائے۔ان کو ان کے حال پر چھوڑدو۔ خداراہ ان کی جان بخش دو، انہیں معاف کردو۔ انہیں معاف کر دو۔