خدشات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے کیونکہ مسلسل تلاش کے باوجود وہ مجھے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ آل پاکستان پارٹیز کانفرنس بلونیا والے اے پی سی کی نیا کو مخاصمتوں کے بھنور سے تو کسی نہ کسی طرح نکال لائے تھے لیکن آج ایک ایسے کہنہ مشق ماہر نظامت کی ضرورت تھی جو اس نیا کو کامیابی دوسرے کنارے پر پہنچا سکے۔ خدشہ تھا کہ کوئی حاسد یا مخالف شرارت کا تیر تقریب کے دوران نہ کھینچ مارے۔ اصل امتحان ابھی تھوڑی دیر بعد شروع ہونے والا تھا، میں نے تجسس کی کمانیں دوبارہ چڑھائیں ، ہر طرف لیڈر ہی لیڈر تھے اور ان کے درمیان خال خال سٹیج کو سنبھالنے کا فن جاننے والے بھی یعنی چھوٹے بڑے لیڈروں کو ان کی خوبیوں خامیوں سمیت چلانے والے ماہرین نظامت ۔میں سب کو جانتا تھا۔سٹیج سج چکا تھا۔ آج ان میں سے تو کسی کے بھی بس کی بات ہیں ، میرے دل نے کہا۔ میری نظریں تھک ہار کر ناکام واپس لوٹیں تو میں انھیں ساتھ لیکر ہال کے ا ندر داخل ہوا اور چپ چاپ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ پھر چند لمحوں بعد میرا زہن بے ا ٹلی کی پاکستانی تقریبات کی تاریخ کی جگالی کرنے میں مصروف ہو گیا ، میں میکانیکی انداز میں ایک اور برے تجربے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا۔
مجھے اب اس تقریب سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی، نا جانے کیوں میرا با یاں ہاتھ سیاہ کوٹ کی اندر والی جیب میں جا کر مالبوورو ریڈ کی کنواری ڈبیا کو سہلانے لگا جس کی ابھی تک سیل بھی نہیں کھلی تھی ، مجلس شروع ہو چکی تھی ۔ میں جھنجلاہٹ اور بے دلی سے اٹھ کر با ہر جانے ہی والا تھا کہ ایسا لگا جیسے زمین نے میرے پاوں سختی سے پکڑ لئے ہوں۔ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے کا سبب جاننے کیلئے اپنے حواس بحال کئے تو میری نظریں بے اختیار سٹیج کی طرف اٹھ گئیں جہا ں سے آواز آرہی تھی آج آپ نے جس طرح درد ے دل کا مظاہرہ کیا ہے شاید یہ یورپ کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہو، یوں لگتا ہے بلونیا والوں نے آپکی شکل میں زمین پر ستاروں کو بلایا ہے میں ٹھٹک کر رہ گیا ، یوں لگا چند جملوں میں کہی گئی وہ چھوٹی سی بات دل سے نکلی اور دل میں جا بیٹھی ہے۔ ا نتہائی شستہ اردو ، لہجے کا زیروبم نہا ئت متناسب، آواز کے اتار چڑھاو پر مکمل کنٹرول ، اور سب سے بڑھ کر لفظوں کا انتخاب ،لفظ ایسے کہ ایک سے بڑ ھ کر ایک۔ ‘یہ آدمی کرے گا’ ہاں ،یہ کر سکتا ہے میرے دل نے گواہی دی۔ لیکن یہ ہے کون؟
تجسس نے سر اٹھایا۔ میں نے جھٹکے سے کوٹ میں سے ہاتھ باہر نکالا اور کنواری ڈبیا پر لعنت بھیجتا ہوا لوگوں کی سفیں چیر کر آگے بڑ ھنے کی کوشش میں ہا تھ پاوںمار نے لگا۔ میں اس اجنبی شخص کے پاس جا کر اسے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا، مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ وہ کوئی عام آدمی نہیںہو سکتا ، وقت گزرنے لگا اور پروگرام آگے بڑھنے لگا جبکہ میں کھسکتا ہوا آہستہ آہستہ اسکے قریب ہونے لگا۔ آپ میں سے کوئی عام نہیں ، کوئی خاص نہیں ، سب برابر ہیں ، سب کو یکساں عزت دی جائے گی، میں انتظامیہ کی میٹنگز میں ذاتی طور پر شامل تھا ، میں کلمہ پڑھ کر ‘ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ‘ کہتا ہوں کہ یہاں سب کو برابر ثابت کر نے کے لئے روائتی سٹیج نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیاتھا یہ بات میر ے پاس آپکی امانت تھی جوا ب میں نے آپ تک پہنچا دی ہے۔ کلمہ پڑھ کر اس نے ا یسی بات کیہ دی کہ دل صاف ہوگئے، چہرے کھل اٹھے، تالیاں تھیں کہ تھمنے کا نام لے رہی تھیں،وہ اجنبی کوئی جادوگر تھا ، مجمع کو اپنے ہا تھوں کی انگلیوں پر نچا رہا تھا،یوں لگ رہا تھا اس نے سب کو مسمر ائز کر رکھا ہے۔ میری اس کی ہر ہر ادا پر پوری پوری نظر تھی۔ وہ جب چا ہتا ہنساتا، جب چاہتا منٹوں میں رلا دیتا۔
اور جب ضرورت محسوس کرتا مجمع پر سناٹا طاری کر دیتا۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈیوٹی کو نبھانے میں کیف محسوس کر رہا تھا ، مزا لے تھا، وہ اپنے کام کو ا نجوائے کر رہا تھا۔ انسان جب اپنے کام کو انجوائے کرنے لگے تو فن کی بلندیوں کو ضرور چھونے لگتا ہے۔ وہ اجنبی جسے میں جانتا بھی نہیں تھا ، غیر محسوس طریقے سے میرے بہت قریب آگیا تھا ، اور میرا دوست بن گیا تھا،بلکل اسی طرح جس طرح آزاد اخبار کا اعجاز احمد جو روم میں رہتا ہے میں جسے میں پچھلے بارہ سال سے جانتا ہوں، ہر دوسرے دن فون پر بات بھی ہوتی ہے لیکن میں آج تک اسے نہیں ملا ، مکان و مقام کی دوری کے باوجود اعجاز احمد میرا بیسٹ فرینڈ ہے اور میں اسکا۔ کون ہیںیہ صاحب ؟ مجھ سے مزید نہ رہا گیامیں متجسس بھی تھا اور بے چین بھی، میں نے قریب کھڑے اپنے ساتھی رپورٹر سے سے بے ا ختیار پوچھ لیا۔
کارپی والے حاجی الیاس صاجب کے عزیز ہیں ، انھی کے ساتھ آئے ہیں، آپ نہیں جانتے ؟میرے زہن پر پڑا منوں بوجھ یکدم اتر گیا، جسم ہلکا پھلکا ہوگیا ، دل کی کلیاں کھلکھلا اٹھیں۔اور نجانے کیوں ہونٹوں پر ایک موہوم سی مسکراہٹ کھیلنے لگی، زبان سے صرف یہی نکلا یہ تو اپنے ہی ہیں۔ میں جس تیزی آگے بڑھ رہا تھا اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پیچھے ہٹا،اور اپنی سیٹ پرسکون سے آکر بیٹھ گیا۔ تقریب میں تو مجھے پہلے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اب تو بلکل ہی ختم ہو گئی تھی۔ میرے ہاتھ ایک بار پھر مالبوورو ریڈ کی کنواری ڈبیا کی طرف بڑھا اور پیار سے اسے سہلانے لگا، میں نے نرمی سے آنکھیں موندھ لیں، میں ہلکے ہلکے سیل بند کنواری ڈبیا کو سہلاتا جاتا تھا اور گوورنمنٹ کالج لاہور کی اپنی اس کلاس فیلو کے بارے میں سوچتا جاتا تھا جس نے یک دن کالج ٹائم کے بعد مجھے اوول گراونڈ میں ملنے کی التجاکی تھی ،وہ میرے بارے میں کچھ مختلف طرح سے سوچتی تھی، مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ اس دن میں کافی دیر تک اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر سہلاتا رہا۔ اور وہ مجھے آندھی فلم کا گانا تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں ، سناتی رہی۔
ا ے پی سی کانفرنس زبردست کامیابی سے دوچار ہوئی، اٹلی سمیت یورپ میں دور دور تک اسکا ڈھنکہ بجا۔ حتی کہ پاکستان تک اس کی کا میابی کی بازگشت سنائی دی۔ کانفرنس میں سب کو ٹائم ملا ، سب خوش ہو کر گئے۔ کئی مواقع پر ماحول کشیدہ ہوا۔ لیکن اس نے معاملہ فہمی سے فضا کو سنبھا لا دیئے رکھا۔ ایک بڑے ٹی وی کے ایک چھوٹے سے نمائندے نے تقریب کے تحریر شدہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تو اس ساحر نے اپنی خداداد صلاحیت اور قدرتی زہانت سے پیچیدہ صورتحال پر یوں قابو پایا کہ سب عش عش کر اٹھے۔ اے پی سی کی تقریب کی کامیابی کا کریڈٹ اگر شعبہ نظامت سے کسی ایک شخص کو جاتا چا ہیئے تو اس کا نام محمد اکمل خان ہے، وہ گزشتہ چند سالوںسے اٹلی کے شہر کارپی میں آباد ہیں۔ اٹلی کے تقریبا ہر شہر میں اپنی کا میاب اور انوکھی نظامت کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ ہر بڑی اور سنجیدہ تقریب میں ان کی سٹیج سیکریٹری کے طور پر خدمات حاصل کرنے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ آج تک کے ان کے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ تقریب کسی بھی موضوع یا کسی بھی نوعیت کی ہواکمل خان اس کی نظامت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
درمیانے قد اور گھٹے ہوئے جسم سے نمودار ہوتی ہوئی طویل قامت شخصیت کے مالک اکمل خان اعلی تعلیم یافتہ ہیں ، وہ ماسٹرز ڈگری کے حامل ہیں، انگریزی، اٹالین، اردو، اور پنجابی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ وضع داری جو اب تقریبا عنقا ہو گئی ہے ، ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے، لہجے کی شائستگی اور زبان و بیان پر مہارت کی وجہ سے وضع داری ان کی شخصیت میں پورے جوبن پر نظر آتی ہے، خاندانی نصب کا اس خوبی میں بڑا اہم حصہ ہے۔ سچے اور کھرے انسان ہیں۔ اکمل خان کا اگر کوئی دوسرا نام ہوتا تو خودداری ہوتا۔ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مر جانے کو تر جیح دینے والے انسان ہیں۔ خود بھوکے رہ سکتے ہیں کسی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے۔ پاکستان میںبہترین اور خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے کہ پردیس کاٹنے کے لئے بلاوا آگیا۔ خود کہتے ہیں ، ملک چھوڑنا میری بہت بڑی غلطی تھی۔ پردیس نے کہیں کا نہ چھوڑا ، گھونسلے سے گرنے اور بے گھر ہونے والا ساری عمر یونہی در بدر بھٹکتارہتا ہے۔
Akmal Khan
اکمل خان میں جو شخصی خوبیاں ہیں ان کا تو آج کے دور میں کوئی مول نہیں ۔الٹا آدمی کے لئے یہ خوبیاں ، خامیوں میں تبدیل ہو کر مصیبت بن جاتی ہیں۔ یہی کچھ اس باکمال انسان کے ساتھ ہوا ہے۔ ہر دم ہنسنے مسکرانے والا یہ خوش اخلاق انسان اٹلی کی معاشی کساد بازاری کا شکار ہو چکا ہے ، اکمل خان کو اگر فوری طور پر باعزت روزگارنہ ملا تو وہ ہم سب کو چھوڑ کر ا ور کاغذ کے پرزوں کا بوجھ اپنے سر سے اتار کر ہمیشہ کے لئے واپس ملک روانہ ہو جائیگا۔ اکمل خان چلا گیا تو اٹلی کی ایسوشی ایشن ازم میں نظامت کا باب یتیم ہو جائے گا !ہم جیسے جاہلوں میں اس جیسا قابل نہ جانے پھر کب آئے ؟ آئیے اکمل کو مل کر روک لیں ، اس کے یوں مایوس اور دلبرداشتہ ہوکر جانے کا گناہ کمیونٹی کے سر نہ لیں ۔ اکمل کا جانا ایک فردکا جانا نہیں، اپنی نوعیت کے ایک منفرد ہنر کا چلے جانا ہے، نظامت یا سٹیج سیکریٹری کے شعبہ میں اٹلی کے اندر معیاری سطع کے لوگ ہیں ہی کتنے؟ کیا اے پی سی میں آنے والی درجنوںتنظیموں میں سے کسی کے پاس اس زہین اور قابل انسان کے لئے کوئی کام نہیں، کوئی پراجیکٹ نہیں؟اب تو ہم جلسوں کی کامیابی کے لئے اکمل خان کو عجلت میں آواز دے لیتے ہیں اور وہ بے چارہ ملک کی خاطر بھاگا بھاگا چلا آتا ہے لیکن جب وہ نہیں رہے گا تو کس سے امید لگائیں گے کس کی راہ دیکھیں گے ،کس کو آواز دیں گے؟ تنظیم سازوں میں سے کی کبھی کسی نے اس سے پوچھا کہ دال دلیا کیسے چلتا ہے، ؟ ہمیں اپنی ماں کی یاد آئے تو کیسے سینہ چر تا ہے محسوس ہوتا ہے نا؟ ، کبھی سوچا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کی ماں بھی دامن پھیلائے امید بھری نظروں سے بیٹے کی جانب دیکھ رہی ہو۔ اب تو اکمل خان کو بڑے بڑے لیڈروں کے وعدوں کا بھی کوئی قلق نہیں رہا۔وہ شکوہ ہی نہیں کرتا۔ کسی سے بھی نہیں۔
شبیر ککرالی صاحب، بشیر امرہ صاحب، محمد الیاس چوہان صاحب، اور آصف رضا صاحب اے پی سی میں مسائل کی جنگ تو اکمل خان نے آپ کے ساتھ ہو کر لڑی تھی تو کیا آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ آپ کے اس اہم ساتھی کو کیا مسئلہ درپیش ہے؟ حافظ جمیل جرال صاحب آپ کو بتانا ہے کہ ، اکمل خان نے ایک دن مجھ سے رابطہ کیا کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے ، میں نے کہا فرمایئے تو معلوم ہے انھوں نے کیا کہا، سنیئے ! انھوں نے کیا کہا کہ پتہ چلا ہے کہ حافظ جمیل صاحب کے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں، براہ مہربانی میری طرف سے افسوس کی ایک خبر لگا دیجیئے، یہ ہے وہ کام جو اس نے مجھ سے کروایا۔ زرا سوچئے ، یہ کوئی اتنا بڑا کام ہے۔ افسوس ! وہ حساس انسان ہمارے بارے میں کس قدر سوچتا ہے اور ہم اس کے ایک معمولی سے کام کے لئے کچھ بھی سوچنے کے لئے تیار نہیں۔ میری اس تحریر کے لکھنے کے ارادے کے متعلق تو اکمل خان کو پتہ بھی نہیں ، ہوسکتا ہے میرے ساتھ آج کے بعد بات ہی نہ کرے ، ہمیشہ کے لئے نا راض ہو جائے کہ میں نے اسکا راز یوں سر عام فاش کیوں کر دیا؟ میں اس کی ناراضگی تو مول لے لوں گا لیکن کمیونٹی کی اس بے حسی پر خاموش نہیں رہوں گا ، اس کا ساتھ کبھی نہ چھوڑوں گا کیونکہ وہ ہمارا قومی فخر ہے ، وہ یہاں رہا تو اپنے جیسے کئی اکمل خان پیدا کر جائے گا۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے۔
چوہدری شریف چیمہ صاحب آپ کو تو اندازہ ہے کہ مجبوری میں ملک چھوڑ کر جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے اس لئے آپ نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ اکمل خان فی الوقت اپنے حالات کے خلاف لڑ رہا ہے۔ وہ جا رہا ہے آیئے اسے مل کر روک لیں! یوں ممکن ہے و ہ کل آپکی جدوجہد کا حصہ بن کا آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ ، کیونکہ مجھے یقین ہے اکمل خان کو ئلے کی سیاہ چٹانوںکے نیچے گھپ اندھیروں میں پڑا ہوا ایک ایسا انمول ہیرا ہے جو ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔