محترم قارئین ! پولیس کا کام عوام کی خدمت اور حفاظت کر نا ہے۔ کسی بھی ملک میں عوام کی سہولت کے لئے پولیس کا اہم کردار ہو تا ہے۔ کیونکہ جرائم پیشہ افراد کو کیفرکردار تک پہنچانا اور مظلوم کی مدد کرنا پولیس کی اول ترجیحات میں سے ہے۔ معاشرے کو جرائم سے پاک بنانااور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عوام کی داد رسی پولیس اسٹیشنز پر کر نے والا کو ئی نہیں دیکھا ئی دیتا پولیس کا شعبہ جتنا مقدس اور پاکیزہ ہو نا چاہیے اتنا ہی بدنام ہو چکا ہے۔ عوام پولیس والوں کو انتہائی نفرت کی نظر سے دیکھتی ہے اس کی وجہ صرف اور صرف پو لیس خود ہے۔ آئے روز ہم لوگ پولیس کی طرف سے عوام پر خواء مخواء کا لاٹھی چارج اور ظلم زیادتی کا سنتے ہیں۔ گذشتہ روز جس طرح لاہور میں ایک نا خوش گوار واقع پیش آیا جس میں پولیس نے نرسز کو تشدد کا نشانہ بنایا جو اپنے مطالبات کو پورا کرا نے کی خاطر ایک پر امن احتجاج کر رہی تھیں اگر انصاف کا تقاضہ دیکھا جائے تو نرسز پانچ روز سے احتجاج کر رہی تھیں اور ان کی سننے کے لئے حکو مت یا حکومتی نمائندوں کے پاس ٹائم ہی نہیں تھا اگر ان کے احتجاج کو پہلے یا دوسرے روز ہی اہمیت دی جاتی یا حکو متی نمائندے یہ سمجھتے کہ یہ بھی ملک کی بیٹیاں ہیں جن کی بات کو سنا جا ئے یہ روڈ پر ذلیل و خوار نہ ہو تی پھریں لیکن ایک طرف ہما ری حکو مت نے سر مہری کا مظاہر ہ کیا تو دوسری طرف پو لیس نے اپنا فرض سمجھ کر ان کو تشدد کا نشانہ بنا یا۔
اس تمام وا قعہ کے بعد سیکر ٹری صحت پنجاب بابر حیات تارڈ کا کہنا تھا کہ لا ٹھی چارج حکومتی فیصلہ نہیں تھا نرسز کو مال روڈ پر آنے سے روکنے پر معاملات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پانچ دن کے احتجاج کی وجہ سے حکومتی ایوانوں میں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے تو نوبت توں توں میں میں پر آ نا کوئی نئی بات نہیں۔ پو لیس کا کام ملک کی بیٹیوں کی حفاظت کر نا تھا لیکن انہوں نے بدقسمتی سے ظالما نہ رویہ اختیار کر کے پولیس کا معیار اور بھی ڈاون کیا ہے۔ گو کہ پولیس کی اس طرح کی پہلے کی بھی حرکات پو رے جوش و خروش سے عام ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پولیس کو کوئی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھنا تو دور کی بات کسی پولیس اہلکار کو پسند بھی نہیں کر تا۔
معذرت کے ساتھ پو لیس کی بہت سی ایسی حرکات جنہوں نے پولیس کے پو رے محکمے کو بدنام کر کے رکھا ہو اہے ان میں سے سب سے بڑی بات پولیس کا بات کر نے کا رویہ ہی اتنا ہتک آمیز ہوتا ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس غریب نے تو کبھی سکول ، کالج کا منہ بھی نہیں دیکھا کیو نکہ آجکل یہ ہر پو لیس اسٹیشن پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ پولیس اہلکار کسی سے بھی تمیز سے بات نہیں کر تے جس کی وجہ سے ایک شریف انسان اپنے حق کی خاطر پو لیس اسٹیشن جا نامنا سب ہی نہیں سمجھتا۔ اور اگر جانے کی غلطی کر ہی بہیٹھے تو آگے اس کو راشی احباب کا سا منا کر نا پڑتا ہے۔ پولیس اسٹیشن پر قدم رکھنا بھی مفت کا نہیں ہے وہاں کی ہر چیز منہ کھو لے اور پو لیس اہلکار پھن پھیلا ئے رشوت لینے میں مصروف ہیں۔ اگر کسی کو اپنا جائز حق بھی حاصل کر نا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پولیس والوں کی مٹھی گرم کر ے۔
قارئین ! میرا مقصد کوئی اپنے ملک کی پولیس کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جن سے پر دہ پہلے سے ہی اٹھا ہوا ہے میں تو اپنے قلم کا حق ادا کر رہا ہوں۔ کہ جس طرح کل پولیس نے ملک کی بیٹیوں کو ظلم کا نشا نہ بنایا اور اس وقت اس بات کا احساس بھی نہیں کیا کہ یہ قوم کی بیٹیاں مسلسل پانچ روز سے اپنے مطالبات کو پو را کرا نے کا رونا رو رہی ہیں جب ان کی آج تک کسی نے نہیں سنی تو تب انہوں نے اگلا قدم اٹھا یا۔
اگر حکومت کہتی ہے کہ ایڈہاک نر سز کو اگر مستقل ہو نا ہے تو وہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر مستقل ملازمت لے سکتی ہیں۔ تو پھر حکومتی اداروں کا بھی کام بنتا تھا کہ وہ ان قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پر نہ رلنے دیتے بلکہ معاملات کو حتمی شکل دینے کے لئے ان کو اہتماد میں لیتے نہ کہ پولیس جن کا رویہ جا نوروں والا ہے ان کے حوالے کر دیتے۔
Pakistan
ہمارے ملک پاکستان کی پولیس جس وقت تک اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی اور جب تک عوام کو انسان نہیں سمجھتی تب تک ہم اسی طرح کے واقعات دیکھتے رہیں گے کیو نکہ پو لیس کو تمیز کا دائرہ کار میں رہنے کا سبق دینا اعلیٰ حکام کی ذمہ داری ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو چا ہیے کہ وہ ہر پو لیس اسٹیشن پر پو لیس رویہ کو بہتر بنا نے کے لئے سخت اقدامات کریں اور جو پو لیس کی قدو منزلت ختم ہو چکی ہے اس کو بحال کر نے کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کرے تا کہ ایک عام انسان بھی اپنے مسائل کے حل کی خاطر پولیس اسٹیشن پورے اعتماد کے ساتھ جا سکے۔
گو کہ نر سز پر تشدد کا اتنا کچھ ہو جانے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے اس سارے واقع کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کاش ملک کی بیٹیوں کا احساس وزیراعلیٰ پنجاب کو پہلے دن ہی ہو جاتا تو اس کی نو بت ہی نہ آتی۔ بحرہال پولیس کے اعلیٰ حکام سے ایک ہی گذارش ہے کہ پو لیس کے رویے ، بدتمیزی اور عوام