مملکت خداد داد کے صوبہ سندھ کے علاقہ تھر پاکر میں غذائی قلت کے باعث موت نے تقریبا دو سو کے قریب قیمتی جانوں کو نگل لیا۔ سینکڑوں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ لوگ پانی اور روٹی کو ترس رہے ہیں مویشی بھی بھوک سے مرنے لگے ہیں۔ کیا قحط اور خشک سالی راتوں رات نازل ہو گئی ؟کیا اچانک پینے کے لئے بوند بوند کو معصوم بچے ترسنے لگے ہیں ؟نہیں۔ نہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوا کر تا
اگر اسکے آثار برسوں نہیں تو مہینوں پہلے ضرور شروع ہوئے ہونگے ۔ تھر پارکر کا علاقہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہے ۔ اس کا رقبہ بیس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔اسکی آبادی اس وقت 14لاکھ کے قریب ہے۔ اسکے دیہات 166کے قریب ہیں جن میں صرف نو دیہاتوں کو نہری پانی تک رسائی حاصل ہے تھر کا کچھ رقبہ بھارت کے پاس بھی ہے۔ خشک سالی اور قحط اچانک نمودار نہیں ہو تے۔ نو دس ماہ پہلے قومی الیکشن کے موقع پر سیاست دانوں کی بڑی تعداد نے اس علاقہ کا رخ کیا ہوگا۔ وہاں کی آبادی نے پینے کے پانی اور خوراک کی کمی کی شکایت کی ہو گی۔عوام کا دکھ اوردرد رکھنے والے جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے وعدے بھی کیے ہو نگے۔ یہ وعدہ بھی کیا ہو گا کہ منتخب ہوتے ہی پینے کے پانی سمیت آپکے مسائل آپکی دہلیز پر حل کرینگے اور صحرائے تھر کو گل و گلزار بنا دینگے ۔مگر 10ماہ گزر گئے ہیں حکومت تو بن گئی۔ لیکن صحرائے تھر کے مظلوم اور غریب عوام صاحب اقتدار کے یادوں سے بھی محو ہو گئے اور پھرجب میڈیا نے یہ خبر دی کہ تھر کے انسان بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ سینکڑوں دیہات خالی ہو گئے ہیں تو بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے صاحب اقتدار خواب غفلت سے بیدار ہو ئے بقول سبط علی سبا گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب بیٹی کسی غریب کی فاقوں سے مر گئی
وزیر اعلی سندھ نے بڑاعجیب و غریب بیان جاری کیا کہ گوداموں میں گندم موجود تھی مگر بر وقت ترسیل نہ ہو سکی مذکورہ بالا شعر حالات کی عکاسی کرتا ہے
امیر شہر سے اپنا حساب لے لینگے غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو
Sindh Government
کتنا ظلم ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکمران اقتدارکی کرسی پر بیٹھے ہی انھیں بھول جاتے ہیں جنہوں نے انھیں ایوان تک پہنچایا ہوائیں سرد ہیں اور جسم بے لباس ہے میرا امیر شہر تجھ کو ذرا احساس ہے میرا
تھر پارکر میں قحط اور خشک سالی کا شکار سینکڑوں بچوں اور دیگر متاثرہ افراد کا علاج معالجہ کے لئے افواج پاکستان کی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں جبکہ بحریہ ٹائون کے چیرمین ملک ریاض حسین نے سانحہ تھر پارکر کی خبر ملتے ہی فوری طور پر متاثرین کی امداد کے لئے بیس کروڑ روپے کی خطیر رقم کا اعلان کیا ہے ۔ساتھ ہی بحریہ ٹائون کی فلاحی اور امدادی شعبے جن میں ایمبولینس ، موبائیل ہسپتال، واٹر ٹینک اور راشن سے بھرے ٹرک شامل تھے۔ متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے ہیں ۔ وہاں فوری طور پر بحریہ دسترخوان بھی انتظام کر دیا گیاہے ۔ جماعتہ الدعوةاور جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم “الخدمت”کے زیر اہتمام متاثرین کی فوری امداد کے لئے کیمپ لگا دئیے گئے ہیں اور سامان کی تقسیم شروع ہے ۔ سندھ کے آثار قدیمہ کو بچانے کے لئے اور سندھ کی ثقافت کو بچانے کے لئے ٹی وی پر آکر بڑی لمبی چوڑی تقریریںکی جاتیں رہیں ۔ فیسٹیول کے نام پر اربوں روپے لوٹاتے رہے ۔ اپنا کلچر ، ثقافت کو بچانے کے لئے تن من دھن لگا دیا ہے مگرغریب بچے بھوکے پیاسے مرتے رہے۔ ایسے سانحہ کیوں ہو رہے ہیں۔کیوں نہیں ہم سوچتے سمجھتے ؟پانی کی قلت کا سد باب کیوں نہیں کرتے؟ مملکت خداد داد کیلئے کشمیر کے بعد سب سے اہم کالا باغ ڈیم اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں ۔کاش کالا باغ ڈیم کا منصوبہ صوبائی تعصب اور منافقت کی سیاست کا شکار نہ ہوتا۔ پنجاب میں کالا باغ ڈیم کے حق میں اور سندھ، خیبر پختونخواہ میں مخالف میں بیان بازی ہوتی رہیں ۔ مصلحت ، جھوٹ ، منافقت نے ہماری سیاست کو گھیرا ہوا ہے۔
اگر قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور مصلحت آمیز رویہ کے بجائے قومی سوچ کو مقدم رکھا گیا ہوتا تو آج کالا باغ ڈیم بنا ہوتا جہاں ہم انرجی کے بحران سے بھی نبر دآزما ہو جاتے وہاں آبی ذخائر سے بارانی علاقوں کو بھی سیراب کرتے اور آج نوبت قحط اور خشک سالی نہ آتی۔ سب کو معلوم ہے کہ دریائے سندھ کا کروڑوں ایکڑ فٹ پانی کسی مفید مقصد میں استعمال ہونے کے بجائے بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے اگر حکومت سندھ اربوں روپے میلوں ٹھیلوں پر لٹانے کے بجائے یہی سرمایہ ڈیموں کی تعمیر پر لگاتے اور پانی کو محفوظ کر کے انرجی بحران سے بھی نبٹتے بلکہ زمینوں کو بھی سیراب کرتے تو شاید قحط اور خشک سالی سے کسی حد تک محفوظ رہ جاتے اور بارانی ،صحرائی علاقوں کو زیر کاشت لاکر سالانہ لاکھوں ٹن غلہ پیدا کر لیتے ۔ سندھ ھکومت کے ساتھ پنجاب حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئے۔
اللے تللے منصوبوں پر قوم کا پیسہ ضائع کرکے نوجوانوں کو بھکاری نہ بنائیں بلکہ نوشہ دیوار پڑھ لیں۔ پنجاب میں بھی ایسی صورتحال خدانخواستہ آسکتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے حالات بھی سندھ سے مختلف نہیں کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کوپس پشت نہ ڈالا جائے۔ ممبران اسمبلی اس پر معذرت خواہ رویہ نہ اپنائیں اور کالاباغ ڈیم پر بھر پور آواز اٹھائیں۔ اگرچہ اس سے تحصیل تلہ گنگ کا بیشتر علاقہ متاثر ہو گا مگر اہلیان تلہ گنگ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں اس عظیم الشان منصوبہ سے نہ صرف انرجی پیدا ہو گی بلکہ تحصیل تلہ گنگ کا بیشتر علاقہ بھی سیراب ہو گا۔