پطرس کے خط

Story

Story

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ایک مفلوک الحال مزدوری کی تلاش میں کہیں جارہا تھا کہ ایک بزرگ کو زخمی حالت میں دیکھ کر اسے بڑا ترس آیا اس نے بزرگ کا زخم صاف کیا ، پانی پلایا اور اپنے پاس موجود روکھی سوکھی روٹی کھلائی اس خدمت سے وہ بزرگ بہت خوش ہوااس کی نیکی کی تعریف کی پھر مفلوک الحال کے حالات سنے بزرگ نے خوش ہوکر ایک عجیب و غریب پتھر دیا یہ کیا ہے؟ مفلوک الحال نے دریافت کیا۔

” یہ پارس پتھر ہے بزرگ نے جواب دیا تمہاری نیکی کا انعام یہ پتھر جس چیز کو بھی چھولے وہ سونے کی بن جائے گی یوں مفلوک الحال بہت امیر بن گیا اور اس دولت سے کم وسائل رکھنے والوںکی خدمت کرنے لگا یہ کہانی جب بھی یاد آتی سوچ میں گم ہو جاتا کہ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہوگا وہ جس چیز کو چاہے سونے جیسی بنا سکتا تھا پھر خیال آتا وہ بزرگ کیا چیز ہوگی جس نے پارس پتھر جیسی چیز تحفتاً دیدی ۔پھر سو چاکیا کوئی انسان بھی پارس جیساہو سکتا ہے وہ جس کو بھی چھو لے سونابن جائے۔ پاسے کا سونا۔۔دل نے کہا ایسے کئی انسان تو آج بھی ہمارے اردگر موجود ہیں اورہم انہیں جانتے بھی ہیں شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پارس جیسی خوبیوں سے نواز رکھا ہے اور وہ جسے چاہیں سچا،سچا اور کھرا سونا بنا ڈالیں پاکستان کے قومی رہنمائوں پر نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوگاکہ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف دو شخصیات ایسی ہیںجن کی شخصیت کااعجاز پارس کی مانند ہے انہوں نے سیاست اور اندازِ سیاست کو بدل کر رکھ دیا دونوں کی آمد تہلکہ خیز تھی اسے سیاسی بھونچال بھی کہا جا سکتا ہے دونوں قومی رہنمائوں میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن کئی قدریں مشترک بھی دونوں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوںنے اپنے دور ِ اقتدار میں جو چاہا وہی کیا جسے پسند کیا اسے پارٹی ٹکٹ دیا جسے چاہ ایک جنبش فارغ کر دیا حتی ٰ کہ اپنے وقت کے بڑے قدآور سیاستدانوں کو گھر بٹھا دیا کہ بیٹھے رہو تصور ِ جاناں کئے ہوئے۔

ملکی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹ وایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ عوام ان کے گرد کھینچے چلے آئے انہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیا کم و بیش ایک دہائی تک عوام ،سیاست اور جمہوریت پر ان کا جادو سرچڑھ کر بولتا رہابلکہ ان کے بعددو مرتبہ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ٍ اعظم اور ایک مرتبہ داماد آصف علی زرداری صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز رہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی آئندہ وزیر اعظم کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں قومی سیاست کے دوسرے طلسماتی کردار میاں نواز شریف ہیں جن پر ”آیا اور چھا گیا”کا مقولہ بالکل صادق آتا ہے انہیں کئی اعزازات حاصل ہیں میاں نواز شریف جب میدان ِ سیاست میں آئے اس وقت تک پنجابی وزیر ِ اعطم کا سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی فہم و فراست اور سیاسی حکمت ِ عملی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا کہا جاتا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردارہے جو بھی عوامل ہوں بہرحال اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو بھی جاتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے پنجابی وزیرِ اعظم بنے انہیں یہ بھی اعزاز ہے کہ تیسری بار وزیر ِ اعظم بننے والے وہ پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں۔ میاں نوا زشریف بلا شبہ مقبولیت کی اس معراج پر ہیں کہ ان کا نام جس سے جڑ جائے معتبرہو جاتاہے ۔۔۔پارس ہونے کے معانی بھی یہی ہیں لیکن شاید انہیں اپنی اس خوبی کا احساس ہی نہیں یا پھروہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نومولود پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔بڑے بڑے چہروں کے مقابلے پر PPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی پارس جیسی شخصیت نے غیر معروف امیدواروں کو سونا بنا ڈالا اصلی اور کھرا GOLD ۔امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبر ہو گیا۔ انکے بعدقدرت نے میاں نواز شریف کو بھی اسی خوبی سے نوازا وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھرے دومرتبہ وزارت ِ عظمیٰ پر فائز رہے گذشتہ انتخابات میں تیسری بار وزیر ِ اعظم بننے کی پابندی کے باوجود مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مقابلے میں نامی گرامی سیاستدان ہار گئے آج کے دن تک سیاسی میدان میں میاں نواز شریف کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے بلکہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متعدد ایسے امیدوار بھی اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔

Shujaat Hussain

Shujaat Hussain

عام حالات میں شاید کونسلر بھی بننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور حامد ناصر چٹھہ ،ہمایوں اختر خان، امیر مقام، اقبال ظفر جھگڑا، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری امیر حسین، لیاقت بلوچ، ممتاز بھٹو، عابدہ حسین، فخر امام، فیصل صالح حیات، شیر پائو جیسے رہنما موجودہ پارلیمنٹ سے باہرہوگئے۔ لاہور میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے بیشتر سیاستدانوں کے ساتھ شیر کا نشان ہٹا دیا جائے تو یقین جانیۓ لوگ انہیں بلی ماننے سے بھی انکارکردیں گے۔ بھٹوکے بعد میاں نواز شریف ایسے قومی رہنما ہیں جنہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیا یعنی امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے جس لیڈر پر اللہ کا اتنا کرم ہوکہ اس کا نام ہی کامیابی کی ضمانت بن جائے وہ جس کو اپنا بنالے دنیا اسی کی دیوانی ہو جائے اور جس کا نام جس کے ساتھ جڑ جائے وہی نام معتبرہو جائے تو ایسے لیڈرسے بھی لوگ مایوس ہونے لگیں تواسے غور کرنا چاہیے۔اس کے دور ِ حکومت بھی غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے لگیں۔ اگر کسی کو اپنے گردے بیچنے پڑیں ۔یا جنسی درندے روز عزتوں کے جنازے نکالیں یا غربت سے تنگ مائیں اپنی اولاد کو قتل کرنے پر مجبور ہو جائیں تو اسے سو چنا چاہیے کہ خرابی کہاں ہے؟ اور ا صلاح ِ احوال کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ بلند بانگ دعوے، خیالی پلائو، حکمت کے بغیرپلاننگ سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔میاں صاحب ! اللہ تعالیٰ مسلم امہ کی بہتری کیلئے آپ سے کوئی خاص کام لینا چاہتے ہیں تبھی آپ کو پارس جیسی خوبیوں سے نوازاہے آپ کے انقلابی اقدامات، ٹھوس منصوبہ بندی، بہتر حکمت ِ عملی اس قوم کو سونا بنا سکتی ہے۔ ورنہ پاکستان کی سیاست میں ”تو خدائوں” کی کوئی کمی نہیں زمین ان سے بھری پڑی ہے جو اپنے سامنے کسی کو دم مارنے کی اجازت بھی نہیں دیتے اب معلوم نہیں آپ پارس بننا پسند کریں گے ۔۔یا؟ ویسے قارئین آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں آجائے تو وہ دوسروںکو ضرور بتا دے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی