جنرل ضیاء الحق کے دور میں پپو نامی بچے کو چار لوگوں نے اغواء کیا اور جنسی ذیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ تمام ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا۔ جرم ثابت ہوتے ہی عدالت نے تمام مجرموں کو سرعام پھانسی کا حکم سنا دیا۔ کیمپ جیل کے سامنے پھانسی گھاٹ تعمیر کیا گیا اور چاروں مجرموں کو لاہور کیمپ جیل کے باہر سرعام پھانسی دے دی گئی۔
اس پھانسی کو سرعام دینے کا مقصد لوگوں میں کوئی ڈر یا خوف پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد مجرموں میں قانون کا خوف پیدا کرنا تھا۔لوگوں کو بتانا تھا کہ اگر وہ کسی کی عزت لوٹیں گے تو انجام انکا بھی موت ہوگا۔اور اسی سرعام پھانسی کے بعد کافی عرصہ تک جنسی ذیادتی تو کیا بلکہ تمام جرائم کا خاتمہ ہی ہوگیاتھا۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں میں سے خوف ختم ہونے لگا۔کیونکہ مجرم قانون کی گرفت سے دوبارہ نکلنے لگے۔ اب آئے روز نئے سے نئے ظلم اندوز واقعات جنم لیتے ہیں کہیں چھوٹی چھوٹی بچیاں تو کہیں جوان لڑکیاں درندوں کی حّو س کا نشانہ بنتی ہیںاور مجرم آزاد گھومتے پھرتے ہیں کوئی غریب انکے خلا ف مقدمہ درج کروانے کی کوشش کرے توپولیس کا ایسا افسوس ناک رویہ ہوتا ہے کہ لوگ مزید ذلالت سے بچنے کے لیے مقدمہ ہی درج نہیں کرواتے ، اگر کوئی مقدمہ درج کروانے میں کامیاب ہوجائے تو مجرم پکڑے نہیں جاتے ۔چاہے مدعی مجرموں کی شناخت بھی کرلیں۔ اور کبھی پولیس مجرموں کو گرفتار کر لیے تو ناقص تفتیش اور رشوت کا بازار گرم ہونے کے باعث مجرم باآسانی عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیںاور اپنی رہائی اور قانون کو دھوکہ دینے کی خوشی میں مٹھائیاں بھی تقسیم کرتے ہیں۔
قارئین اسی طرح کا کچھ دل کو ہلا دینے والا واقع مظفر گھڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاوں لنڈی پتانی میںدوماہ قبل فرسٹ ایئر کی طالبہ 20 سالہ آمنہ کے ساتھ پیش آیا۔ جس کو مقامی گائوں کے پانچ اوباش لڑکوں نے جنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا،آمنہ اور اسکے لواحقین مقدمہ درج کروانے کے لیے تھانے کے چکر لگاتے رہے لیکن کوئی بھی مقدمہ درج کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میڈیامیں خبر آنے کے بعد مقدمہ تو درج کر لیاگیالیکن عملی طور پر پولیس کی جانب سے کچھ نہ کیاگیا۔آمنہ نے 5لوگوں کو شناخت کیا لیکن مقدمہ ایک کے خلاف درج ہوا،اور جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا وہ بھی پولیس کی ملی بھگت سے عدالت سے رہا ہوگیا ، کیوں کہ آمنہ کے پاس انصاف حاصل کرنے کے لیے نہ تو کوئیبڑی سفارش تھی اور نہ ہی کیس میں پیش رفت کروانے کے لیے پولیس کو دینے کے لیے پیسے۔ دو ماہ گزرنے کے بعد جب آمنہ کو انصاف ملتا نظر نہ آیا تو اس نے تھانے کے سامنے خود سوزی کرلی ،اور دو دن ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد زندگی کے بازی ہار گئی۔
Girl Rape
آمنہ وہ باہمت لڑکی تھی جس کو پڑہائی حاصل کرنے کا جنون یہاں تک تھا کہ روزانہ 20کلومیڑ کے فاصلے پر واقع کالج میں تعلیم حاصل کرنے جاتی، یقینا اگر وہ انسانی درندگی کا نشانہ نہ بنتی تو اسکا مستقبل بہت روشن ہوتا۔پولیس کی لاپرواہی کے باعث آمنہ نے تو اپنی جان دے دی ،لیکن کیا اب آمنہ کے مجرموں کو سزا مل سکے گئی۔آمنہ کے خاندان کے ساتھ پچھلے 20 سال سے ذیادتی ہوتی آرہی ہے لیکن غریب ہونے کی وجہّ سے ان کو آج تک انصاف نہ مل سکا۔20سال قبل آمنہ کی پھوپھو کے ساتھ زیادتی ہوئی ،ایک سال قبل آمنہ کی بہن کے ساتھ اور دو ماہ قبل آمنہ کے ساتھ۔
یہ تمام امر کتنا افسوس ناک ہے ایک ہی خاندان کی تین عورتوں کو مختلف ادوار میں ذیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا ہو ،اور وہ خاندان انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو۔ایک اور اہم بات بتاتا چلوں آمنہ کے ملزموں میں سے ایک کے بھائی نے آمنہ کی بہن عزرا کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور اسی مجرم کے ماموں نے 20سال قبل آمنہ کی پھوپھو کو جنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔یعنی آمنہ اور اسکے خاندان کی عورتوں کے ساتھ ہونے والی جنسی ذیادتی میں ایک ہی خاندان کے لوگ شامل ہیں جو لوگوں کی جوان بچیوں کے ساتھ جنسی کھیل کھیلنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔
آخر حّوا کی بیٹی کیوں اس معاشرے میں اتنی غیر محفوظ ہوگئی ہے عورتوںکے ساتھ جنسی ذیادتی کرنے والے لوگ آخر کیوں بھول جاتے ہیں کہ عورت توان کے گھر میں بھی موجود ہے ،کہیں ماں تو کہیں بہن کہیں بیٹی تو کہیں بیوی کی شکل میں ،جو اگر ماں ہے تو اسکے پیروں میں جنت ،بیٹی ہے تو باعث رحمت ،بہن ہے تو بھائیوں کی رازدار، بیوی ہے تو مر دکی زندگی کا سکون ،مرد کی کامیابی کی ضمانت۔ان درندوں کے سامنے مختلف چہروں میں عورت ہونے کے باوجود پھر بھی کوئی خوف ،ندامت کیوں نہیں ہوتا، کیوں نہیں غیرت نام کی کوئی چیز ان میں ہوتی لیکن ان درندوں کی آزادی کی وجہ ہمارا کمزور نظام قانون بھی ہے کیونکہ آمنہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بعد 2ماہ تک نہ تو اس علاقے کے MNAاور نہ ہی MPAاسکی مدد کو پہنچے اور نہ ہی سرکاری پراسیکیوٹر نے اس بے بس لڑکی کی مدد کرنا مناسب سمجھا۔یقینا اگر آمنہ کی خودسوزی سے پہلے کوئی سیاسی رہنما یا سرکاری پراسیکیوٹر اسکی مدد کو پہنچ جاتے تو شاید اسکو خودسوزی نہ کرنا پڑتی۔آمنہ کی خود سوزی میں جتنا پولیس ڈپارٹمنٹ ملوث ہے اتنے ہی مقامی سیاسی لو گ بھی۔
وزیراعلی پنجاب نے آمنہ کے گھر پہنچ کر پولیس افسران کو معطل کرکے اور گرفتاری کا حکم دے کر اپنے فرض کی ادائیگی شروع کردی ہے لیکن خادم اعلی آپ کا فرض اس وقت مکمل ادا ہوگا جس وقت آپ آمنہ کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچاکر معاشرے کے لیے عبرت کا نشان بنائیںگے۔کیونکہ آج ہمارے معاشرے بہت سے لوگ انصاف نہ ملنے کے باعث قانون کو ہاتھ میں لیے لیتے ہیں اور قانون نہ مہیاکرنے والے افسران ہی ان کو سب سے پہلے دہشت گرد کہتے ہیں خادم اعلیکہیں آمنہ کا بھائی رحمت اللہ مایوس ہوکر قانون کو ہاتھ میں نہ لیے لے۔ پولیس کے اعلی افسران کو بتاتا چلوں کہ رانا ذوالفقار جیسے تفتیشی صرف مظفرگڑھ میں ہی موجود نہیں بلکہ پنجاب کے بیشر تھانوں میں موجود ہیں۔
جب تک کرپٹ تفتیشی افسران پولیس میں موجود ہیں آمنہ جیسی انصاف کی متلاشی بچیاں خود سوزی کرتی رہیں گی۔ آخر خادم اعلی کس کس آمنہ کے گھر کھلی کچری لگاتے رہیں گے۔ کچھ کرپٹ پولیس افسران کو محکمہ میں سے دھونے کی ضرورت ہے اگر ان کرپٹ پولیس افسران کو چھانٹی کر کے مہکمہ سے نکال دیا جائے تو آئندہ آمنہ جیسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔
Abdul Rauf Chouhan
تحریر : عبدالرؤف چوہان ای میل : : chouhan201259@yahoo.com