ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

Salahuddin Ayubi

Salahuddin Ayubi

اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالارسلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا جہاں روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی ہوجائے وہاں دو چیزیں سستی ہو جاتی ہیں عورت کی عزت اور مرد کی غیرت میں اظہر زیدی کی سوچ میں مصلوب تھا کال کٹی تو مٹھہ ٹوانہ کے ملک عزیز الرحمان معاشرتی قدروں کی تباہی پر شکوہ کناں تھے معاشرے کی بے ثباتی ،بے اعتنائی پر سراپا بحث نظر آئے ھم کس دور میں زندہ ہیں ؟اُس دور میں جب انسان کے بارے میں رائے تھی کہ وہ تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھا میری نظروں نے انسانی تہذیب کے ارتقاء کی جو تاریخ چاٹی ہے اُس کے مطابق وہ رشتوں کی پہچان سے عاری تھا ، وحشی تھا بے لباس تن کے ساتھ وہ بہن ،ماں ،بیٹی کے رشتے کو ایک ہی نام دیتا اور کہا جاتا ہے کہ وہ شعور سے نابلد تھا لیکن میرا ذہن نہیں مانتا اسلام سے پہلے کی تاریخ میں بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جیسا واقعہ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی دھرتی نے جھیلا مان لیا تب انسان شعور سے نابلد تھا ،ادراک سے خالی ،مگر ہزاروں برس کی تہذیب اور اتقاء کے سفر نے اسے شعور بخشا پھر بھی وہ بیٹی جیسے مقدس رشتے کے لباس کو تار تار کیوں کر رہا ہے بستی لنڈی پتافی کی معصوم آمنہ کی موت کے ذمہ دار ہم میڈیا والے بھی ہیں یہ ایک خوفناک سین کی عکاسی تھی جسے میڈیا کے ہاتھ میں پکڑے کیمرے کی آنکھ محفوظ کر رہی تھی آمنہ نے اپنے اوپر تیل چھڑکا ،ماچس جلائی اور آگ لگا لی تیل چھڑکنے سے لیکر جلنے تک کا خوفناک منظر انسانی آنکھ نے میڈیا کی شکل میں دیکھا مگر انسانیت کی آنکھ نہ کھلی اس بات سے بھی چلو انکار نہیں کہ تہذیب کے ارتقاء پکڑنے سے قبل انسان میں شعور نہیں تھا ،اُسے ادراک نہیں تھا وہ ایسا انسانیت سوز کام کرتا تو دوش کیسا؟مگر اُس نے یہ کام نہیں کیا تہذیبی ارتقا سے قبل عورت کو زندہ درگور تو کیا مگر اُس کے جسم کو درندوں کی طرح بھنبھوڑا نہیں بانجھ سوچوں کے ساتھ میں یہ سوال جب اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں تو میرا ایک دوست کہتا ہے انسان نے اپنا تن تو ڈھانپ لیا مگر ذہن ننگا ہو گیا اس بار جب میں اپنے آبائی گائوں ”چوآ”گیا تو شہر خاموشاں میں میرا ہاتھ پکڑ کر چا چا نورا ایک قبر پر لے گیا

اُس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی میں نے پوچھا !چا چا !یہ کوئی تمہارا عزیز ہے؟چاچے نورے نے گردن نفی میں ہلا دی میں نے پوچھا چاچا ! پھر تو یہ یقیناً تمہارا دوست ہوگا اب کے بھی چاچے نورے کا جواب نفی میں تھا میں زچ ہو گیا میں نے چاچے نورے کے کندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑا آخر یہ کون ہے ؟ ایک انسان !ہاں بیٹا ایک انسان جس میں انسانیت تھی ،رشتوں کی پہچان ہمیشہ جس کا وطیرہ رہا ہمارے علاقے کا یہ نوجوان آرمی میں سپاہی تھا صبح صادق ایک غیر مسلم بھنگن ان کی یونٹ میں جھاڑو دینے آیا کرتی تھی ایک سپاہی اسے نیت بد سے تنگ کرتا ایک دن وہ رودی اس لحد کے اندر سوئے ہوئے انسان نے کہا آج کے بعد تم اسے تنگ نہیں کرو گے وحشی نے کہا کیوں ؟ یہ تمہاری بہن لگتی ہے ہاں آج سے یہ میری بہن ہے پھر اگلے روز جب اُس وحشی نے اُس بھنگن لڑکی کو چھیڑا تو اِس لحد میں سوئے انسان نے اپنی رائفل کی پوری میگزین اُس وحشی کے ناپاک جسم پر خالی کردی وہ وحشی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور یہ ۔۔۔۔ہاں بیٹا یہ کسی کی بہن کو اپنی بہن کہہ کر تختہ ء ِ دار پر جھول گیا میں اظہر کے سچ کے حصار سے نکلنا بھی چاہوں تو نہیں نکل سکتا لیکن ایک بات سچی ہے۔

Police Officers

Police Officers

اور اس سچ پر کسی بھی جھوٹ کی ملمع کاری نہیں کی جاسکتی کہ آرپی او ڈیرہ غازیخان عبدالقادر قیوم ،ڈی پی او مظفر گڑھ عثمان اکرم گوندل ،ڈی ایس پی چوہدری اصغر ،ایس ایچ او تھانہ میر ہزار ادریس اور تفتیشی ذوالفقار رانا پر خادم اعلٰی کے احکامات کا عتاب گرا ،تین پولیس آفسر گرفتار بھی ہو گئے لیکن خادم اعلٰی کادست راست وہ صوبائی وزیر اور ن لیگی ایم پی اے جنہوں نے نادر بھنڈ جیسے غنڈے کو پالا اور اُس کے محافظ بنے مذکورہ پولیس اہلکاروں پر جنہوں نے دبائو ڈال کر انصاف کا قتل کیااور زبردستی مقدمہ کا اخراج کرایا سب سے بڑے مجرم ہیں اُن کیلئے قانون کی کسی کتاب کے کسی صفحے پر کوئی سزا نہیں اور نام نہاد این جی اوز ،نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ہمارا بکا ہوا میڈیا مورد الزام صرف اُن افراد کو ٹھہرا رہا ہے ،اُن کے خلاف سراپا احتجاج ہے جنہیں استعمال کیا گیا مگر جن مجرموں نے یہ کام کرایا اُن کے خلاف احتجاج کا ایک لفظ تک نہیں۔

ایک دوست نے عرصہ پہلے کہا تھا کہ چاند پر قیامت گزر چکی زندہ ہم بھی نہیں ہیں وہ پھر بھی راتوں کو روشن کیئے ہوئے ہے ہم نے اجالوں میں اندھیر مچا رکھا ہے اُس نے اپنی سمت نہیں بدلی اور ہم اپنا چلن بھول گئے وہ ماموں بن کر بہنوں کے آنگنوں میں ننھی منی کلیوں کو مہکا رہا ہے اور ہم باپ ہوکر بھی بہو ،بیٹیوں کو بے توقیر کر رہے ہیں ،دھبے ہیں اشرف المخلوقات جسے فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس منکر ہو گیا اور رائندہ درگاہ کردیا گیا دنیا میں آج یہ ابلیس کو سجدہ کرتا پھرتا ہے یہ کب ہوگا ؟جب انسان انسان کا لہو ن پیئے گا جب بے بسی کے آنسو موتی بن کر اُبھریں گے جب آہ عرش پر جائے گی تو نالوں کا جواب لائے گی جب محبت کی ناقدری کے پائوں تلے روندی نہ جائیگی جب بھوک کے عوض اقدار نہ بیچی جائیں گی
دوستو ! ہم کس دور میں زندہ ؟

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک