کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود آئی جی سندھ کی تقرری نہ ہونے پر حکومت سندھ کی سرزنش کی اور اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو حکم دیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے مشاورت کے بعد ساڑھے گیارہ بجے تک آئی جی سندھ کا نام کو حتمی شکل دی جائے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بے امنی عمل در آمد کیس کے سماعت کی دوسرے سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کی تقرری کے معاملے پر حکومت سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آئی جی سندھ کی تقرری کا کیا ہوا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے دیئے گئے تینوں ناموں سے وزیر اعلیٰ متفق نہیں، اور وقت چاہئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا عدالت میں کہنا تھا کہ وفاقی حکومت آئی جی کی تقرری کے لئے صوبے سے مشاوت کی پابند ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ کیا سندھ حکومت حکومت راضی نہیں ہوگی تو آئی جی مقرر نہیں کریں گے۔ اسٹیبشمنٹ اتھارٹی ہے اور یہ حکومت کے معاملات ہیں عدالت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے پیر تک عدالت میں آئی جی کی تقرری کا نوٹیفیکشن پیش کریں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ کا عدالت میں کہنا تھا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی مرضی سے آئی جی مقرر ہوتا ہے۔
وفاق نے ہمیں آئی جی تقرری کے لئے تین نام تجویز کئے۔ جو نام دیئے گئے وہ لوگ یہاں امن قائم نہیں کرسکتے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا کہنا تھا کہ آپ کیا باتیں کررہے ہیں کیا ایک آدمی امن قائم کرسکتا ہے، آپ اس ایک شخص کا نام دے دے جو امن قائم کرسکتا ہے، ہم وفا ق سے سفارش کریں گے کہ اسے آئی جی لگادیں۔ چیف جسٹس ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدلفتح ملک کو حکم دیا کہ ابھی جائیں وزیر سندھ سے بات کریں اور ساڑھے گیارہ بجے تک آئی جی کے لئے ایک نام لے کر آئیں۔