سندھ حکومت اور انتہائی مطلوب مجرم

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو سکون کا سانس کیونکر ملے گا؟ جب کہ یہاں پر پتھروں کو باندھ کر کتوں کو آزادی دیدی گئی ہو! ایسے معاشرے کبھی پنپا نہیں کرتے ہیں جہاں عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے والے حکمران نا پید ہو چکے ہوں اور عوام سسک سسک کر زندگیاں گذارنے پر مجبور کر دیئے جائیں۔ گھٹن کی ایسی فضاء میں انسانوں کیا حیوانوں کا زندہ رہنا بے حد و حساب مشکل بنا ہوا ہے۔ کیا اسی کو ہی ہم جمہوری معاشرہ کہیں گے جہام پر انسانی خون بہانے والے دریندے فاختائوں کے لباس میں دکھائی دیتے ہوں؟اور چیخ چیخ کر جھوٹی آہ و زاری کر رہے ہوں۔َ

کیا یہ ہی جمہوری معاشرہ ہے جہاں نام نہاد جمہوریت کے چیمپیئن عسکری اداروں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی بار بار ترغیب دے رہے ہوں؟کیا یہ ہی جمہوری لوگ ہیں جو ملک کو معاشی میدان میں آگے بڑھانے سے خائف ہیں؟کیا یہی لوگ ملک کے محب ہیں جواگر کہیں سے بجائے لُٹیروں کے ملک کے لئے امداد کے راستے کھلتے ہیں تو اُن میں رکاوٹ ڈالنے ہو ں؟ کیا جو لوگ وطنِ عزیز کے ہیرو کو زیرو، اور زیرو کو ہیرو مانتے ہوںوہ اس ملک اور قوم سے مخلص ہیں ؟جواوراپنے شوٹرز سے جرائم کروانے کے بعد کہتے ہوں کہ یہ ہم نے نہیں کیا!!! کراچی جیسے شہرِ بے امان کو جو لوگ بھوتوں کی بستی میں تبدیل کرنا اپنا فرضِ اولین گردانے ہوں کیا یہی لوگ رہنما بننے اور کہلانے کے اہل اور حقدار ہیں؟؟؟نہیں نہیں میں نہیں مانتاظلم کے ضابطے!!!ان ظالموں کے خلاف آج آواز اٹھانے کی بھی کسی میں ہمت نہیں ہے کہ ہم سب لوگ موت کے خوف میں مبتلا ہیں۔جبکہ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ بقول غالب کے”موت کا ایک دن معین ہے”موت تو اُسی وقت آئے گی جب اس کا وقت آئے گا۔

اُس وقت سے ایک لمحہ پہلے نہ بعد!لہٰذا سچ کہنے سے مت گھبرائوکہ حضرت علی کے بقول ”میری موت میری زندگی کی حفاظت کر رہی ہے” سندھ حکومت کے حوالے سے آج کے اخبا ر میں ایک ایسی خبر پڑھی جس کے بعد میرے اعصاب نے کام کرنا چھوڑ دیاہے۔کہ حکومت کی چھتری تلے” انتہائی مطلوب مجرموں کوغیر قانونی طور پر آبی راستوں سے فرار کرایا جا رہا ہے” اور یہ کہ سندھ حکومت میں مجرموں کے سر کی قیمت مقرر کرنے کا حوصلہ نہیں ہے!!!یہ ہیں ہمارے نا اہل حکمران !جن کی نااہلی ہر ہر لمحہ عود کر سامنے آتی رہتی ہے۔جنہیں لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ سُجھائی ہی نہیں دیتا ہے۔جو حرص و ہوا کے بندے ہیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ اس ملک میں اس وقت لاقانونیت اور بد امنی کا راج ہے۔ جس کے حصے دار حکمرانوں کے ساتھ اس ملک کے تمام ادارے بھی ہیں!!!تو کس سے منصفی چاہیں۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف جیسے ہی کراچی سے رخصت ہوے چند دنو کے بعد ہی سندھ کی حکومت نے مختلف سیاسی اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے انتہائی خطر ناک 162 مطلوب مجرموں کے سر کی قیمت لگانے کے سلسلے میں بے حد کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوے انہیں فرار میں مدد دے کرہماری بد حالی کے نئے دسر کھولدیئے ہیں۔با خبر ذرائع کے مطابق ان مطلوبہ مجرموں کے سر کی قیمت لگانے کے بجائے سندھ کے کرتا دھرتائوں کی جانب سے ان مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کے حامل مجرموں کو غیر قانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے سمندری راستوں سے ملک سے فرار کرانے میں مدد فرہم کر رہے ہیں۔ جو اس ملک اور اس کے مظلوموں کے خون کی فروخت کا کھیل ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔

کراچی میں امن و امان کے سلسلے میں وزیر اعظم کے دورہ کراچی سے ایک ہفتہ قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سندھ کی صوبائی حکومت کو162 انتہائی مطلوب مجرموں کے ناموں کی فہرست فراہم کی تھی اور کہا گیا تھا کی حکومت ان لوگوں کے سروں کی قیمت مقرر کرے۔مگر ایسا کرنے میں حکومت نہایت ہی پژ مُردگی کا ثبوت
دے رہی ہے۔ذرائع کے مطابق مندرجہ ذیل فہرست سے ان مجرموں کی وابستگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مبینہ طور پر 112 مجرمان کا تعلق ایک ایسی سیاسی تنظیم سے ہے جس کا سب سے زیادہ فوکس کراچی شہر پر ہے۔جبکہ ان میں سے دس ، کا تعلق سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت کے مجرموں سے ہے، اوردس مجرموںکا تعلق اینٹی شیعہ کالعدم تنظیم سے ہے ،اور دس مجرموں کا تعلق سندھ کی ایک قوم پرست جماعت سے ہے۔ اسی طرح دس کا تعلق لیاری کے ایک مضبوط گینگ وار گروپ سے ہے۔یہ تمام چہرے سامنے آجانے کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ کیوں خاموش ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟اگر نااہلی کا یہ دور جاری رہا تو ملک اور خاص طور پر صوبہ سندھ مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔

با خبر ذرائع نے مجرموں کے نام کے ساتھ وہ لُوکیشن بھی بتادی ہے جہاں ان مجرموں نے اپنے آقائوں کے احکامات کے تحت ڈیرے جمائے ہوے ہیں۔مگر ہمارے حکمرانوں میں یہ سکت ہی نہیں ہے کہ ان مجرموں کو پکڑیں۔قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں وزیر اعظم سے شکایت کرتی ہیں کہ آپریشن کے لئے مرکزی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صرف زبانی حمایت کی جاتی ہے ۔اس ضمن میں ڈی جی رینجرز نے کراچی میں پریس کانفرنس میں اپنا واضح موقف پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ’ ‘سندھ حکومت کے دیئے گئے اختیارات کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔کراچی میں چاہے فوج ہی کو کیوں نہ بلا لیا جائے ،امن کے لئے پہلے نظام کو درست کرنا ہوگا۔

Karachi

Karachi

کراچی آمد پر وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ جن پارٹیوں کے مجرمین مذکورہ فہرست میں شامل ہیں وہ پارٹیاں کراچی آپریشن کی کھل کر حمایت نہیں کر رہی ہیں۔مگر بلواسطہ طریقے پر آپرشن میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔وزیر اعظم کو اس بات پر متبہ بھی کیا گیا تھا کہ آپریشن کے ثمرات اُس وقت تک پائدار انداز میں سامنے نہیں آئیں گے جب تک کہ صوبائی حکومت اور سر کردہ سیاسی جماعتیں مجرمومن کی پشت پناہی کی بجائے آپریشن میں تعاون نہیں کریں گی۔

لیاری بد امنی کے سلسلے میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ جب تک صوبائی حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈر ز لیاری کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے،اُس وقت تک لیاری میں گینگ وار کی کیفیت بر قرار رہے گی اور کراچی جلتا رہے گا۔وزیر اعظم پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مختلف گروہوں کی سر پرستی میں دن رات مشغول ہیں۔اور کوئی بھی اپنے دہشت گردوں کو لگام دینے کے لئے تیار دکھائی نہیںدیتا ہے۔ہمیں مجرموں کے ساتھ مجرموں جیسا بر تائو کرنا ہوگا!!!مگر بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کے دبائو کی وجہ سے آپریشن کے دوران ہر دفعہ مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلتے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی ایسی نا اہلیاں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں کبھی بھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔آج لگتا یوں ہے کہ جیالہ کرپشن اور بے ایمانوں کا نوالہ بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ مجرموں کو پکڑنے اور تلاش کرنے میںماضی کی سیاست سے دستبردار ہو چکا ہے۔اس کی شائد بڑی وجہ یہ ہے کہ زر داری نے تمام اپنے مزاج کے لوگوں کو پیپلز پارٹی میں بر داشت کیا ہوا ہے۔جہاں کہیں بھی گُڈ گورنس کا تصور ہی موجود نہیں ہے۔

Sindh Government

Sindh Government

قانون نافذ کرنوالی ایجنسیاں اس بات پر کفِ افسوس مل رہی ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے کراچی کے عوام کے لئے پائدار امن کی کوششیں کرنے کے بجا ئے درون ِخانہ کھل کر لیاری کے گروہوں کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی مطلوب مجرموں کے سروں کی قیمت لگانے سے خوف کا شکار ہے۔ سندھ حکومت نے انتہائی مطلوب مجرموں کی مدد کر کے پاکستان اور کراچی کے استحکام کو دائو پر لگا دیا ہے۔

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com