امریکی الزامات کا ڈرون

America

America

نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کے بہانے امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ اپنے اتحادی ممالک، و سائل و ٹیکنالوجی کے باوجود امریکہ کو نہتے افغانیوں سے منہ کی کھانا پڑی۔ طویل جنگ میں امریکہ کو شکست ہوئی۔ اسی دوران امریکہ نے ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کیا جس میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا لیکن آج تک اس حوالہ سے کوئی ثبوت یا شواہد پیش نہیں کئے گئے۔ امریکہ کی افغانستان میں آمد اصل میں پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے۔

پاکستان کا ایٹمی ملک ہونا امریکہ اپنے آپ کے لئے خطرہ سمجھتا تھا اس نے بلیک واٹر کے اہلکاروں کو بھی پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لئے بھیجا۔ریمنڈ ڈیوس بھی پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے پکڑا گیا جسے امریکی لے گئے اور پاکستانی حکمران بے گناہ امریکہ کی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس نہ لا سکے۔افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے دوران اس نے پاکستان کے خلاف بے پناہ مواقع پر پروپیگنڈہ بھی۔انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی اوباما کے سامنے دہائیاں دیتے رہے۔افواج پاکستان کے خلاف سازشیں کی گئیں مگر ہم یہ بات فخر سے کرتے ہیں کہ پاکستان کی فوج،حساس ادارے،آئی ایس آئی ایک منظم،اور مضبوط ترین ادارے ہیں۔پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال اور بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کے رد عمل میں ہونے والے خود کش حملوں میں افواج پاکستان کے عظیم نوجوان قربانیاں دیتے رہے تو دوسری طرف سلالہ چیک پوسٹ پر امریکہ نے بھی پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں چوبیس جوان شہید ہوئے تھے۔پاک فوج و حساس اداروں کے بعد امریکہ نے سب سے زیادہ پروپیگنڈہ پروفیسر حافظ محمد سعید کے خلاف کیا۔امریکی میڈیا بھی اس پرویگنڈے اور الزامات میں پیچھے نہیں رہا۔

ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں مشرف دورحکومت کے دوران اْسامہ بن لادن کے تحفظ کیلئے آئی ایس آئی میں سپیشل ڈیسک قائم کیاگیا، جنرل پاشاکواْسامہ بن لادن کے ٹھکانے کاعلم تھا ، خفیہ ایجنسی میں کچھ سیل شدت پسندوں اور طالبان کیخلاف کام کررہے تھے تو کچھ لوگ مدد کررہے تھے ، تعلقات کی خرابی کی وجہ سے امریکہ نے معاملہ پاکستان کے ساتھ نہیں اْٹھا۔ پاکستان کے انٹیلی جنس ذرائع نے نیویارک ٹائمز کا تجزیہ مستردکرتے ہوئے اِسے حقائق کے منافی اور پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک کوشش قراردیاہے۔ نیویارک ٹائمزکے میگزین میں شائع ہونیوالے ایک تجزیئے میں کارلوٹا گال نے ہرزہ سرائی کی کہ آئی ایس آئی میں کچھ سیل ایسے تھے جو شدت پسندوں اورطالبان کے خلاف کام کررہے تھے جبکہ کچھ سیل مدد کررہے تھے ،جنرل پاشاامریکیوں کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف سرگرم تھے۔

شارلٹ گال نے دعویٰ کیاکہ اْسامہ کے بچائوکیلئے آئی ایس آئی میںسپیشل ڈیسک صرف ایک شخص نے بنایا،وہ شخص کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھاتاہم نام ظاہرنہیں کیا۔ امریکی اخبار نے دعویٰ کیاکہ اْسامہ بن لادن کا حافظ سعید سے براہ راست رابطہ تھاجو آئی ایس آئی کے قریب تھا۔ اْس کاکہناتھاکہ مشرف حکومت اور انٹیلی جنس سربراہ جنرل کیانی طالبان کا تحفظ کرتے تھے ،امریکہ نے مسئلے کو اجاگرنہیں کیاکہ پاک امریکہ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے۔امریکی میڈیا کی خبرپر پاکستانی میڈیا کے انٹیلی جنس ذرائع نے اب تک کی رپورٹ کو بے بنیاد قراردیتے ہوئے کہاہے کہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ، تردید کرتے ہیں ، پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ماضی کی طرح اس بار بھی مغربی میڈیا اوچھے ہتھکنڈوں پر اْترآیاہے۔ پاکستان میں اْسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کا کسی کوعلم نہیں تھا۔ اس قسم کے الزامات کا مقصد پاکستان اور اس کے قومی اداروں کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔دو دن قبل سینئر کالم نگاروں و مدیران کے ساتھ امیر جماعة الدعوة کی نشست میں جب جماعة الدعوة کے فلاحی کاموں کو تمام احباب قلم نے سراہا تو حافظ صاحب کہنے لگے کہ ہم تھر کے قحط زدہ علاقوں میں،بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوںمیں اب تک راشن و خوراک تقسیم کر رہے ہیں۔زلزلے میں تباہ ہونے والے مکانات جماعة الدعوة تعمیر کر رہی ہے ۔بلوچستان میں وہ علاقے جہاں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے جاتے تھے اور پاکستان کے یوم آزادی کو موقع پر یوم سیاہ منایا جاتا تھا آج انہی علاقوں کے مکین جماعة الدعوہ کے ریلیف کے کاموں سے متاثر ہو کر اپنے ہاتھوں سے ”پاکستان زندہ باد” لکھ رہے ہیں۔جماعة الدعوة کا جرم صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اقتدار اور مفادت کی سیاست نہیں کرتے بلکہ اتحاد امت کی بات کرتے ہیں۔

Pak Army

Pak Army

سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کے بعد دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کے خلاف جو تحریک چلائی اس میں جماعة الدعوة کا کردار سب سے نمایاں اور واضح تھا ۔لاہور،کراچی،راولپنڈی سمیت دیگر شہروں میں لاکھوں لوگ دفاع پاکستان کونسل کے ان جلسوں میں شریک ہوئے تھے اور امریکہ کے خلاف اظہار نفرت کیا تھا۔مظفر آباد میں جب افسوسناک زلزلہ آیا تو جماعة الدعوة کے کارکنان سب سے پہلے امدادی کاموں کے لئے پہنچے تھے ۔ملک میں آنے والی آفات میں ریلیف کے حوالہ سے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا کردار سب سے نمایا ں رہا۔ناروے و ڈنمارک نے جب گستاخانہ خاکے شائع کئے تو سب سے پہلے اسی جماعت نے ہی تحریک حرمت رسول کے پلیٹ فارم سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متحد کیا ۔جماعة الدعوة کا جرم صرف اتنا ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کی کفالت کر رہی ہے۔حافظ سعید کا جرم یہ ہے کہ وہ ریلیف کے کاموں میں سب سے آگے ہوتا ہے۔پاکستان میں اس جماعت کے کارکنان جتنے منظم و متحد ہیں شاید ہی کسی کے پاس ہوں۔اپنے امیر کے ایک اشارے پر بلا کسی لالچ کے ،بے خوف و خطر امدادی کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں ۔ماضی میں امریکہ نے امیر جماعة الدعوة کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر لگائی تو حافظ محمد سعید میدان میں آ گئے اور امریکہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہاڑوں یا غاروں میں نہیں رہتے بلکہ لاہور شہر کے معروف و مشہور ترین علاقے میں ان کا گھر ہے۔

وہ پاکستان کے تمام شہروں میں جاتے ہیں ۔انکی جماعت کے پروگرام و اجلاس ہوتے ہیں سروں کی قیمتیں تو انکی لگائی جاتی ہیں جو غاروں میںہوں ۔اس جواب پر امریکہ بوکھلا گیا اور کہہ دیا کہ ہم نے صرف اس لئے انعام رکھا تھا کہ ہمیں معلومات چاہئے تھیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس حافظ سعید کے حوالہ سے کسی قسم کے کوئی ثبوت نہیں وگرنہ صرف معلومات کے لئے وہ اتنی بڑی رقم کے انعام کا اعلان نہ کرتا ۔امریکہ صرف اور صرف پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے ۔پاکستان کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو حکومت کو امریکی الزامات پر خاموش رہنے کی بجائے امریکہ کو جواب دینا چاہئے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کہ” اسامہ بن لادن کا حافظ محمد سعید سے براہ راست رابطہ تھا” کو سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا ہے کہ میرا اسامہ بن لادن سے کبھی کوئی رابطہ نہیں رہا ۔ انہوں نے امریکہ کو ایک بار پھر چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے پاس اس حوالہ سے کوئی تحریری یادستاویزی ثبوت ہے تو وہ پیش کرے ۔ہم کسی بھی بین الاقوامی عدالت میں ان الزامات کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا خون امریکہ نے بغیر ثبوتوں کے کیا۔اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے کہ اسامہ بن لادن جسے نائن الیون حملوں کا ذمہ دار امریکہ نے ٹھہرایا اس پر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں چلا،کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔بناء ثبوتوں کے سارا کچھ امریکہ نے کیا اور بغیر ثبوتوں کے امریکہ کا پروپیگنڈہ کرنا اسکا پرانا وطیرہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکمران ہوش کے ناخن لیں اور امریکہ سے امداد لینے کی بجائے پاک فوج اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزامات پر بات کریں اور امریکہ کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں کہ بہت ہو چکا اب مزید برداشت نہیں ہو گا۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472