ڈاکٹر عبدالحمید گیلانی کا بچپن اور نوجوانی انتہائی مشکلات و مصائب میں گزری اور معاشی حالات خراب ہونے کے سبب انہیں انتہائی مشکل حالات کا مقابلہ کرنا پڑا ۔7سال کی عمر میں یتیم ہو گئے اور جب پاکستان بنا تو ان کا تمام خاندان تقسیم ہند کے وقت شہید ہو گیا قیام پاکستان کے دوران ان کے خاندان کو سکھوں نے اس گاڑی میں شہید کیا جس پر سکھوں نے حملہ کرکے قتل وغارت کا بازار گرم کر رکھا تھا کہتے ہیں کہ جیسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ جس ٹرین میں سکھوں نے حملہ کیا آپ لاشوں کے نیچے دب گئے جس کے سبب زندہ رہے سارا خاندان شہید کروا کر پاکستان آئے اور لاہور میں اپنی خالہ کے گھر قیام کیا۔
ابتدائی تعلیم شیرانوالہ گیٹ سکول سے حاصل کی تھی لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ان کے چچا مولانا حاجی محمد یوسف انہیں لاہور سے نونار ضلع نارووال لے آئے اور پھر ہیاں کے ہو کر رہ گئے ۔ لیکن ملازمت کے سلسلے میں مری ٹیکسلا ، راولپنڈی ستیراہ ، لیسر کلاں ، سنکترہ میں فرائض سرانجام دہی کیلئے ایک جگہ سے دوسری عارضی طور پر دوسری جگلہ منتقل ہوتے رہے ۔ مذہبی گھرانہ ہونے کے سبب آپ کی تعلیم و تربیت میں آپ کے چچا مولانا محمد یوسف شاہ نے اہم کردار ادا کیا۔ اور آپ کے کردار کو نکھارنے اور اسلامی تعلیمات کے علاوہ تصوف فقہا احادیث کی تعلیم بھی دی ۔اور سرکاری ملازمت کے سلسلے میں جہاں بھی گئے مذہبی اور روحانی تربیت کے سبب آپ نے ان علاقوں میں شہرت پائی اور کئی دیہاتوں کے لوگ ان کی تعلیمات اور خیالات کے گرودہ ہو گئے ۔ جب کسی ضلع سے ٹرانسفر ہو تے تو وہاں کے لوگ ان کی ٹرانسفر کی سخت مخالفت کرتے۔
حضرت سلطان باہو کے دربار پر جاتے تو رو پڑتے اور آنکھوں میں آنسو جاری ہو جاتے جو رکنے کا نام نہ لیتے ۔ اور جب داتا علی ہجویری کے مزار پر بھی آنکھوں میں آنسوئوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اپنے ہی خاندان میں کافی سالوں کے بعد معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب روحانیت کی جن مناز ل کو طے کرچکے ہیں ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا ۔ خاندان مذہنی تھا ان کے چچا حاجی محمد یوسف سے لوگوں نے التجا کی کہ حضرت بارش نہیں ہو رہی دعا فرمائے آپ نے لوگوں کو میدان میں اکھٹا کیا تیز دھوپ تھی ۔ جب دعا کی ابھی دعا کئے دس منٹ ہوئے تھے کہ کالی گھٹائیں جمع ہو گئی ۔ اور بارش برسنے لگی۔
گرد و نواح کے دیہاتوں کے لوگ مولانا محمد یوسف شاہ کو انتہائی عزت و احترام کرتے اور ان سے تقوی و پرہیز گاری کے سبب ڈرتے تھے جب مولانا صاحب اس دنیا سے رضصت ہوئے تو ہم اس وقت چھوٹے تھے ان دفن کئے ابھی 4گھنٹے ہوئے تھے کہ گائوں کے مغربی حصہ میں مستریوں کے گھر اپنی حیاتی میں اکژ جاتے تھے ۔ بتاتے ہیں کہ دفن کرنے کے 4گھنٹے کے بعد رات کے 8بجے کا وقت تھا کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو حاجی صاحب لالٹین پکڑے ہوئے کھڑے تھے گھر والے حیران ہو گئے کہ ابھی تو ان کو دفن کر کے آئے ہیں اور حاجی صاحب لالٹین لے کر کھڑے ہیں گھر والے ان کے قریب بھی آئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد غائب ہو گئے سید عبدالحمید گیلانی فنا فل رسول تھے۔ اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک آتا تو فورا آنکھون سے لگا تار آنسو جاری ہو جاتے بھارت کے سرحدی علاقے لیسر کلاں میں کئی ہندئو خاندانوں نے آپ کی تعلیمات اور عمل سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا ۔ بلکہ بھارت کے سرحدی علاقہ میں اکثر اردگر د کے دیہاتوں کے لوگ آپ کو لے جاتے اورساری ساری رات ان کی مذہبی اور تصوف اور راز و نیاز کی باتیں سنتے تھے بلکہ ہر دن ایک گائوں میں تبلیغ کے لئے باری بندی ہوتی تھی۔
Hazrat Muhammad PBUH
عاشق رسولۖ کی حژیت سے وہ حضر ت اویس قرنی کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے اور ان کی زندگی کے واقعات عشق رسولۖ اپنے ارادت مندوں کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت اویس قرنی دنیامیں اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے تھے۔ دیکھا جائے تو سید عبدالحمید گیلانی کی زندگی بھی ایک سربستہ راز کے مانند تھی۔ دنیاوی زندگی میں ان کی شخصیت کے بیشتر درویشانہ عناصر چھپے رہے۔ ان کے وصال کے بعد ان کی زندگی کے ایسے حقائق آشکار ہوئے جس سے سلوک و تصوف کی کئی جہتیں عیاں ہوئیں حضرت اویس قرنی کے علاوہ حضرت حسن بصری ، حضرت بایزید بسطامی، حضرت عبدالقادر جیلانی سے بہت متاثر تھے جن کے واقعات سنایا کرتے تھے اور ان کی تقلید کی ہدائت بھی فرماتے۔
ڈاکٹرسید عبدالحمید کی زندگی کے پہلوئوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے مادیت کی بجائے روحانیت کی پرستش کی اور نفسیاتی خواہشات کے خاتمہ کے لئے عمل طریقت سے کام لیا کسی کو پوری زندگی تکلیف دکھ نہیں دیا بلکہ کئی دیہات ان کی گفتگوسے اتنا متاثر ہوتے تھے کہ ان کی محفلوں میں بار بار بیٹھتے تھے سید عبدالحمید گیلانی نے سلام کی تبلیغ کی اور وہ ملاں ازم کے خلاف تھے کیونکہ ان کا خیا ل تھا کہ ملاں ازم اسلامی نظریات و خیالات کو نقصان پہنچار ہے ہیں اور اسلام کو مشکل پسند مذہب بنانے میں ان کی کوشش جاری رہتی ہے۔
اسلام امن دوستی اور نرمی کا مذہب ہے ان کا خیال تھا کہ تصوف ہی ایسا علم ہے جس سے حجاب کھل جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے حقائق سامنے آجاتے ہیں انسان حقیقت پسندی کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر بسنت سے بندو خاندانوں نے اسلام قبول کر لیا یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے سید عبدالحمید گیلانی نوناری کی زندگی سادگی اور خلوص سے عبارت ہے تمام فرقوں اور مسلک کے طبقات ان کے نظریات اور خیالات سے استفادہ کرتے سید عبدالحمید گیلانی یکم اپریل 2003کو وفات پاگئے ان کا مزار عبداللہ غازی بمقام نونار نارووال کے مزار کے قریب واقع ہے۔ انہوں نے چار بیٹیاں اور چار بیٹے مصروف صحافی و ادیب سید عارف نوناری ، پروفیسر سید عبدلواحید،ڈاکٹر امین گیلانی ، ڈاکٹر سید عبدالحمید گیلانی چوڑے ہیں ۔ ڈاکٹرسیدامین گیلانی دربارشریف کے سجادہ نشین ہیں جو ہرسال عرس کا انتظام و بندوبست کرتے ہیں۔