سے زیادہ اہمیت دینے کو تیارنہیں ہوسکی ہے کتاب پڑھنے کے چار طریقے ہوتے ہیں(١)کتاب کے متن کو سرسری اندازسے پڑھنا(٢)متن کوسمجھ کرپڑھنا(٣)لفظوں کے مزاج اورمتن سے جھانکتے مطالب کواپنے اندرجذب اور محسوس کرنا (٤) احساس کے بعدکسی تخلیقی عمل کا پیدا کرنا۔ دنیا کی کوئی بھی کتاب ہو،ان میں سے کسی ایک مرحلے سے ضرورگزرتی ہے۔ کتاب کے بغیر انسانی زندگی بے کیف ہے،بے روح ہے ،بے نورہے،بے معنی ہے، بے مغز ہے اوربے رونق ،کیوں کہ ترقی کے تمام سوتے کتاب کے متن سے ہی پھوٹتے ہیں۔ترقی کے لیے کتاب کاصرف مطالعہ کافی نہیں ہوتا،اسے سمجھ کرپڑھنابھی کافی نہیں حتیٰ کہ متن کی داخلی ہئیتوں تک پہنچنا بھی کافی نہیں بلکہ اسے محسوس کرکے تخلیقی سطح پراس کااظہار ضروری ہوتاہے ۔آپ کوئی بھی ایسا انسان نہیں دکھاسکتے جس کی ترقی کاسفرکتاب کے بغیر شروع ہواہو۔ آج جوبھی قومیں یاافرادتخلیق و اختراع کی چوٹی پرکھڑے ہوئے ہیں ان کاخمیرکتاب کے متن ہی سے اٹھاہے ۔ہماری کم نصیبی کہ کتاب کے ساتھ ہماری وابستگی ایسی نہیں ہے اس لیے ترقی بھی دوسروں کامقدر چمکارہی ہے۔ آج ہم جس کتاب کی بات کر رہے ہیں یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے بلکہ یہ وہ کتاب ہے جوساری کتابوں کا ماخذ و مرجع ہے اورجسے اُم الکتاب کی حیثیت حاصل تھی ،حاصل ہے اورحاصل رہے گی۔مقامِ افسوس ہے کہ اس اُم الکتاب یعنی قرآنِ مجیدکے ساتھ ہماراتعلق افہام و تفہیم کابھی نہیں ہے ،تخلیقی اوراختراعی نوعیت کاربط توبہت بعدکی چیز ہے۔
بلاشبہہ قرآنِ مجید سے مریض شفاپاتے ہیں،ا س کی برکتوں سے بگڑے کام سنورجاتے ہیں اوراس کی تلاوت سے آنے والے مصائب اپناراستہ بدل لیتے ہیں ۔ ہمیں سوچناچاہیے کہ جب قرآنِ مجیدکی تلاوت سے زندگیاں بدل سکتی ہیں تو اس کی داخلی اورمعنوی کیفیات کوجذب کرکے زندگیاں کیوں نہیں بدل سکتیں؟ہمارے عوام کی اکثریت سمجھتی ہے یااسے ایساسمجھنے پر مجبور کردیا گیا ہے کہ قرآن محض تلاوت کی کتاب ہے،اس کی آیات جھاڑ پھونک اور نظرِ بد دور کرنے کے لیے اتری ہیں، اس کی تلاوت سے ثواب ملتا ہے اور دوکان و مکان میں خیروبرکت اترتی ہے اورا س سے روحوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے وغیرہ وغیرہ۔بلاشبہہ قرآن ان ساری خصوصیات کا بھی حامل ہے مگر اس کامقصدِنزول ان حیثیتوں سے کہیں بالاتر ہے ۔ اگر آپ نے قرآنِ کریم کومحض تلاوت کرنے اورثواب کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے تویقین کرلیجیے کہ ہم نے قرآن کے نزول کامطلب ہی نہیں سمجھاہے ۔
قرآنِ مجیدکواپنامرکزِحیات اورسرچشمۂ ہدایت تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے ،اس کے اندرچھپی ہوئی حقیقتوں اورحکمتوں کومحسوس کیاجائے اورپھرعملی سطح پراسے دنیاکے سامنے پیش کیا جائے ۔جب تک ہم اسے Absorb کرنا نہیں سیکھیں گے تب تک اپنی عظمتِ رفتہ کی گردِراہ کوبھی نہیں پاسکیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآنی مطالب کے اس احساس وانجذاب کا مطلب کیاہے اوریہ کیفیت کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
بغیرعربی زبان کے قرآنِ کریم کی صحیح تفہیم ممکن ہی نہیں ۔آج قرآنِ کریم کے بہت سارے تراجم مارکیٹ میں ضروردستیاب ہیں اس کے ذریعے بہت سارے باذوق حضرات قرآنِ کریم کوسمجھنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیںلیکن قرآن کی روح دراصل عربی زبان میں ہے۔ دنیا کی کسی کتاب کاکسی بھی زبان میں ترجمہ ہوجائے لیکن وہ اصل کے برابرکبھی نہیں ہوسکتا۔جوچاشنی اصلِ کتاب کے مطالعے سے محسوس ہوسکتی ہے وہ ان کے تراجم پڑھنے سے کبھی نہیں ہوسکتی کیوں کہ اصلِ متن اوراصلِ مصنف کے پیچھے ایک پوراپس منظرہوتاہے ، اس متن میں اس ماحول کی خوشبوئیں بھری ہوتی ہیں۔ مترجم لاکھ کوشش کرلے وہ ویسا ماحول اور ویسی فضاکبھی نہیں پیداکر سکتا۔اصلِ کتاب پڑھے بغیرہم چاہے کتنے ہی تراجم پڑھ ڈالیں، اگر ہم باذوق ہیں تویقین مانیے ہمیںتشنہ لبی کا احساس ہمیشہ ستاتارہے گا۔
Prayers
ہم روزانہ پانچ وقت کی نمازیں پابندی سے پڑھتے ہیں، نماز میں سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں،نمازکے بعد دعائیں مانگتے ہیں اور روزانہ یاکبھی کبھار قرآنِ کریم کی تلاوت بھی کرلیتے ہیںلیکن ہمارے پلّے کچھ بھی نہیں پڑتاتوہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے رب کے حضورکیسے حاضر ہو سکتے ہیں؟ہمیںنمازوںمیں لطف اس لیے نہیں آتا کہ عربی زبان ہمارے لیے اجنبی بن گئی ہے ۔ اگرہم عربی زبان سے واقف ہو جائیں تویقین کرلیجیے ہمیں عبادات میں بڑالطف آئے گا۔ ہماری نماز کبھی بے روح نہیں ہوگی ،ہماراحج محض حج نہیں رہ جائے گا بلکہ اِیفاے عہدکا مظہربن جائے گا۔ہم اس وقت محسوس کر سکیں گے کہ ہم خداسے کیا باتیں کررہے ہیں۔ہم یہ جان سکیں گے کہ خداسے ہمارے تعلق کی بنیادیں کیا ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے :أنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأنَّکَ تَرَاہُ، نْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَنَّہُ یَرَاکَ(بخاری)یعنی عبادت ایسے کروکہ تم خداکودیکھ رہے اگراتنانہ بھی ہوسکے تو اس طرح کروکہ خداتمہیں دیکھ رہاہے۔یہ حدیث روحانیت اور تصوف کی اصل ہے ۔ہم نمازسے غیرمحسوس طورپر روحا نیت کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اوراس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوکہ ہم جوکچھ خداکے حضورپیش کررہے ہیں ، اس کا مطلب کیا ہے ۔
نمازوں میںہماراجی اسی لیے بھٹکتاہے کہ ہم جو سورتیں یاآیات تلاوت کرتے ہیں انہیں سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔اگرہم سورتوں اور آیات کے مزاج کومحسوس کرنے لگیں تویقینا ہمارے دل خشیتِ الٰہی سے بھرجائیں گے ،پھر ہماری نمازیں محض اٹھک بیٹھک کاتماشانہیں بلکہ تقربِ الٰہی کازینہ بن جائیں گی۔اسے ایک محسوس مثال سے سمجھتے چلیں۔
آپ کسی جلسہ گاہ یاسیمینارہال میں بیٹھے ہوں ۔کوئی خطیب انگریزی یاعربی میں تقریرکررہاہوتوآپ چاہے کتنے بھی شوقین ہوں تھوڑی دیرکے بعدضروربورہو جائیں گے اورچاہیں گے کہ جلد سے جلدفاضل خطیب اپنی تقریرختم کرے اورکوئی اردوزبان یا جس زبان سے آپ کی اچھی طرح آشنائی ہے، اس میں تقریرکرے اورجب آپ کی پسندیدہ زبان میں تقریر ہونے لگے گی توآپ کی ساری توجہات اسی طر ف مرکوزہوجائیں گی ۔آپ نہ صرف اسے سنیں گے بلکہ اسے محسوس بھی کریں گے ۔ آپ اپنے Boss،کسی امیر،کسی آفیسریامنسٹرکے پاس درخواست لے کرجائیں اوراس سے اپنامدعابیان کریں توضروری ہے کہ جس مدعاکوآپ بیان کررہے ہیں اسے اچھی طرح سمجھنے پربھی قادر ہوں تبھی آپ اپنادردِدل اس کے سامنے اچھے ڈھنگ سے بیان کرسکیں گے۔بلا تمثیل نمازبھی ایک قسم کی دعاہی ہے ۔جب تک آپ کویہ معلوم نہیں ہوگا کہ آپ اپنے رب سے کیامانگ رہے ہیں اورنمازمیں اپنے پروردگار سے کیاباتیں کررہے ہیں تب تک معرفت ربانی کاحصول ناممکن ہے کیوں کہ عربی زبان مسلمانوں کو اپنی صحیح شناخت تک پہنچادیتی ہے اورانسان پرسے اس کی ذات پرپڑے ہوئے پردے گرادیتی ہے اس کے بعداپنے رب کی شناخت ومعرفت اورقربت کافاصلہ بس دوچارقدم ہی رہ جاتا ہے۔حدیث شریف: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ(حلےة الاولیاء وطبقات الاصفیائ:ج:١٣،ص:٢٠٨) کاغالباًایک مقصدیہ بھی ہےمسلمانوں کاتصورِقرآن صرف ثواب تک محدودکیوں ہے ،یہ بات سمجھ سے بالاترہے ۔
اگرہم ثواب کی نیت سے پڑھیں گے تو صرف ثواب ہی پائیں گے اوراگراس کے مفہوم کوسمجھ کر،اسے جذب کرکے اورجذب ومحسوس کرنے کے بعدتخلیقی سطح پربیدارہونے کی نیت سے پڑھیں گے توتلاوت کاتوثواب ملے گاہی ترقی کے رازبھی کھلتے چلے جائیں گے ۔ کبھی غورکیاکہ قرآنِ کریم کے صرف تیس پارے ہی کیوں ہیں۔؟راقم الحرو ف نے یہ بات کسی مستند کتابِ سیرت یاتفسیرمیں نہیں پڑھی مگرقیاس یہ ہے کہ ممکن ہے اس میں ایک حکمت یہ بھی ہوکہ مہینہ تیس دن کاہوتاہے اس لیے پارے بھی تیس ہی رکھے گئے تاکہ بندہ روزانہ ایک ایک پارہ تلاوت کرے اوراس کے مفہوم کواپنے عمل میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہو۔اگرہم روزانہ ایک ایک پارے کی تلاوت کرتے ہیں تویہ حددرجہ مبارک بادی کی بات ہے لیکن یہ پڑھنااور تلاوت کرناسعادت مندیوں ،برکتوں اور ترقیوں سے اسی وقت ہم آغوش ہوسکے گی جب ہم پر کامیابیو ں کے دروازے وا ہونے کا آغازہوجائے اوریہ آغازاسی وقت ہوگا جب ہم مطالعے کا چوتھا طریقہ اپنائیں گے۔ اگرہم مطالعے کا تیسراطریقہ اپنارہے ہیںیعنی قرآن کے مفہوم کواپنے اندر محسوس کر رہے ہیں تومبارک ہوکہ ہم نے ترقی کا پہلازینہ طے کر لیاہے لیکن ابھی بھی کامیابی وترقی کے سارے زینے عبورکرنے کاوقت نہیں آیا،یہ ترقی اسی وقت دستک دے گی جب ہم لَعَلَّھُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَجیسی آیتوں کے تقاضے پورا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں جس کی طرف قرآن نے بار ہا ترغیب دی ہے ۔
لیکن ذرارُکیے ،قرآن کریم کو سمجھیے ضرورکہ فہمِ قرآن ہمارا دینی حق ہے اوریہ حق ہم سے کوئی چھین نہیں سکتامگراس کامطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ہم قرآن کی باتوں کواپنے خیالا ت ورجحانات کے ترازو میں تول کراس کے مطابق فیصلہ کرنے لگیں۔قرآن ایک ایسا سمندر ہے جس کی حیرت ناکیاں کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں ۔ قرآن کی بہت ساری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آئیں گی اورہماراذہن مفہوم کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے گا تو قرآن کے ماہرین سے رجوع کرنا ہوگا ۔ بغیر علما سے رجوع کیے ہوئے ہمیں اپنی طر ف سے کوئی مطلب اخذ کرنے کی کوشش ہرگزہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی قومی زبان اردوہے مگرناچیزراقم الحرو ف کاطالب علمانہ خیال ہے کہ مسلمانوں کی قومی زبان عربی ہے صرف عربی۔علاقائی زبانیں یایوںکہہ لیجیے کہ مادری زبانیں توکچھ اور ہوسکتی ہیں مگرقومی زبان عربی ہی ہے ۔جیسے ہمارے برِصغیرمیں اردو بولی جاتی ہے اس لیے علمانے یہاں کے شہریوں کی آسانی کے لیے اسلامیا ت کاایک کثیر سرمایہ اردو میں منتقل کردیاہے۔اس حیثیت سے اردو برِصغیر میں اسلام کی نمائندہ زبان بن گئی ہے مگریہ قومی زبان نہیں ہے ۔ ہم عصری ترقی کے لیے دنیاکی دیگر زبانوں میں عبور حاصل کریں تاکہ معاشی طورپرخودکفیل ہوسکیںمگردین میں کمال پیدا کرنے کے لیے عربی زبان لازماًسیکھیں ۔یہ بات گرہ باندھ لینے کی ہے کہ بغیرعربی زبان کے دین کی روح سے آگاہی ہوہی نہیںسکتی ۔عربی کل بھی ضروری تھی ، آج بھی ضروری ہے اورکل بھی ضروری رہے گی ۔ہم یقینا مسلمان ہیں اورقرآن وحدیث کے بغیر زندگی کاسفرکامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے کیوں کہ ہمارے دین کی اصل اوربنیادی کتابیں عربی میں ہیں۔ ہم اگر ضعیف العمرہیں،کاروباری اور ملازمتی الجھنوں میں الجھے ہوئے ہیں، ایسے مسائل کے شکارہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں توکوئی بات نہیں مگرعربی سیکھنے کی کوشش ضرورکریں اور آج ہی یہ عہدلے کراٹھیں کہ ہم خودتوعربی نہ سیکھ سکے مگراپنے بچوں اور ماتحتو ںکوعربی ضرور سکھائیں گے ۔ اگرہم اپنے بچوںکو عالمِ دین بناتے ہیں تو سبحان اللہ،ماشاء اللہ اگرنہیں بناتے تو کم ازکم عربی زبان وادب توانہیں سکھاہی دیںتاکہ وہ اسلامی روایتوں اور اپنے اسلاف کی قدروں کے حقیقی امین ووارث کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں۔ ہم چاہے طالب علم ہوں،استاذہوں،تاجرہوں ،ملازم ہوں، کتاب کے بغیرایک قدم چلناتودرکنارقدم اٹھانے سے پہلے ہمیں سوبار سوچنا پڑے گا۔ ہم جوبھی کتاب پڑھتے ہیں سمجھ کرپڑھتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہم مطالعے کا تیسرااورچوتھاطریقہ نہیں اپناتے مگر اتنا توجانتے ہی ہیں کہ ہمارے زیر مطالعہ کتاب میں لکھاکیاہے ۔
اس کے بغیرہم نہ امتحان میں کامیاب ہو سکتے ہیں،نہ پڑھا سکتے ہیں،نہ تجارت کرسکتے ہیں اورنہ ملازمت۔ان معاملا ت میں توہمارا شعورہماراساتھ دیتاہے مگرجب ہم قرآن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیںتواسے چوم چاٹ کر، ایک رکوع،ایک سورت یا ایک پارے کی تلاوت کرکے جزدان میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیتے ہیں۔دل پرہاتھ رکھ کربتائیے کیاایسانہیں کرتے ؟ سوال یہ ہے کہ قرآن کے اوراق کھولتے وقت ہماراوہ شعور اورسمجھ داری کہاں چلی جاتی ہے جو تعلیم ،تدریس ،تجار ت اور ملازمت میں ہمارے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی ہے ۔ہم روزانہ اخباربھی ضرورپڑھتے ہیںاور بڑے لطف اور دل چسپی سے پڑھتے ہیں۔ہم اردوداں ہیں توانگریزی اخبار پڑھنے سے الجھن ہوتی ہے اوراگر انگریزی داں ہیں تواردوکی طرف دیکھتے بھی نہیںکیوں کہ اجنبی زبانو ں میں ہمیں صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ کچھ لکھاہے ،کیالکھاہے اس کی خبرنہیں ہوتی ۔معمولی اخبارکوصرف اس لیے سمجھ کرپڑھتے ہیں کہ ہمیں حالات کی آگاہی ہوتی رہے اورہم Updateرہ سکیں لیکن ہم اپنے دستورِحیات یعنی قرآن کومحض تلاوت اورثواب کے لیے پڑھتے ہیں۔ فیاللاسف۔ آخر اللہ کے کلام کے ساتھ ہی ایساسلوک کرنے کی وجہ کیاہے ؟ بغیرسمجھے تلاوت بھی کارِخیرہے مگریہ قرآن کی برکتوں کا صرف ایک فی صدحصہ ہے ،اس کے نناوے فی صد برکتیں اس کے مفہومات کوعمل واختراع اورتحقیق وتخلیق کی سطح پرپروان چڑھانے میں ہیں۔
Hadeeth
ہمارادعویٰ کہ قرآنِ کریم ہماراآئین ہے ،منشورہے ،دستورِ حیات ہے، اسی وقت صحیح ہوسکے گاجب ہم ا س سے استفادے کے لائق بن جائیں اوراس کے مطالب کوعملی سطح پر نافذ کردیں۔ شاعرِ ِمشرق ڈاکٹراقبال کہتے ہیں :تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواںہے مگرصاحبِ کتاب نہیںیہاں ”صاحبِ کتاب”دراصل قرآن کاعملی اورتخلیقی اندازہے ۔اقبال نے اس شعرمیں ترقی اورکامیابی کارازہمارے حوالے کردیا ہے ۔ ترقی کے پیچھے کتاب ہی ہوتی ہے۔کامیاب آدمی ”کتاب خواں” نہیں ”صاحبِ کتاب ”ہوتاہے ۔”کتاب خواں”کتاب کوصرف Enjoyکرتاہے ،Absorbنہیں کرپاتاجب کہ ”صاحبِ کتاب’ ‘ اسے Absorbکرتاہے اوریہی کامیابی کاپہلازینہ ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو”کتاب خوانی ” سے زیادہ ”صاحبِ کتاب”ہونے کی توفیق ارزاں فرمائے ۔ چلتے چلتے ایک بات اورعرض کردوں۔اگرآپ درس نظامی کے فارغ التحصیل ہیں،علماے دین میں شمارہوتے ہیںمگرعربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے توآپ کواپنے دعوی پرنظرثانی کرناچاہیے۔عالم دین کاصحیح مطلب یہ ہے کہ وہ براہ راست قرآن وحدیث سے استفادہ کرنے پرقادر ہو، صلاحیتوں کے اعتبارسے کم یازیادہ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ عالموں کوعربی پرمکمل قدرت اور اس زبان میں لکھنے پرپوراعبور ہولیکن کم ازکم اتناتوہوناہی چاہیے کہ اسے عربی کتابوں کوسمجھنے میں دقت نہ ہو۔حدیث ، فقہ ،سیرت ،تفسیر، تاریخ اوران سے متعلقہ علوم کااصل ذخیرہ عربی زبان میں ہے اوریہ اتنازیادہ ہے کہ اردواورفارسی زبان میں لکھاجانے والا سرمایہ اس کاایک فی صدبھی نہیں ہے۔بڑے بڑے مفکرین اور دانشور کہتے ہیںکہ اگر آپ باذوق ہیں، محقق ہیں،عالم دین ہیں اور کسی موضوع پرکچھ لکھناچاہتے ہیںتوآپ کو اصل اورماخذکی کتابوں کا رجوع کرنا چاہیے۔ اگرآپ عربی مدرسے سے فراغت حاصل کرنے اوروہاں نو دس سال صرف کرنے کے باوجود براہ راست عربی سے استفاد ہ نہیں کر پاتے تومعاف کیجیے آپ عالم توہیں مگر عالمِ دین نہیں ہیں۔ ع رکھیوغالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف