موبائل فون کو دور حاضر کی اہم ترین ٹیکنالوجی کا شرف حاصل ہے جو کہ چند ہی دہائیوں میں انسانی زندگی پر یوں راج کرنے لگی ہے کہ ہر چھوٹے سے لیکر بڑے تک ، خواتین سے لیکر مرد حضرات تک اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ ہر بڑے سے بڑے بزنس مین سے لیکر چھوٹے سے چھوٹے مزدور تک سب کے پاس مختلف قیمتوں رنگوں اور کمپنیوں کے فرق کے ساتھ موبائل فون موجود ہے۔ ایک بزنس رپورٹ کے مطابق پاکستان میںٹیلی ڈینسٹی کی شرح 68 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں موبائل فون کنکشنز کی تعداد مارچھ 2012 ء کے اختتام تک 11 کروڑ 83 لاکھ 16 ہزار تک پہنچ گئی ، اس طرح ملک میں ہر 100 فرد کے پاس 68 افراد کے پاس موبائل کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ یہاں پر پی ٹی اے کی اعداد و شمار اپنی جگہ لیکن ایک سے زائد سموں کے استعمال کا رجحان بھی تیزی سے زور پکڑ رہا ہے۔ غیر معروف برانڈ ز کے بعد اب ملٹی نیشنل برانڈز بھی ایک سے زائد سموں کی سہولت والے موبائل فون متعارف کر راہی ہیں۔ جس سے ٹیلی ڈینسٹی کے حقیقی اعداد و شمار کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ اعداد وشمار جولائی تا مارچ کے دوران 86 لاکھ 20 ہزار نئی سمیں ایکٹیویٹ کی گئیں۔ ماہانہ بنیادوںپر 9.5 لاکھ نئی سمیں ایکٹیویٹ کی جارہی ہیں۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق مختلف موبائل کمپنیوں کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے پیکج اور بنڈل آفرز کے سبب صارفین ایک سے زائد کمپنیوں کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے متعدد سمیں رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔ موبائل فون کمپنیاں اب بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی فروخت کے لئے سرگرداں ہیں اور اس حوالے سے نئی سرمایہ کاری بھی چھوٹے شہروں میں ہی کی جارہی ہے۔ یہ تو وہ پوری رپورٹ تھیں جو کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتے موبائل فونز کے حوالے سے دی گئی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق ہمارے معاشرے میں جس قدر موبائل فونز کاکثرت سے استعمال کیا جارہا ہے ۔ موبائل فون ایک طرف وقت کی اہم ضرورت تو دوسری جانب اس کے معاشرے میں مضر اثرات سے انکاری نہیں ہوا جاسکتا۔ مندرجہ ذیل میں چند نقصان بیان کئے جارہے ہیں۔
موبائل صارفین کو معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ چند ایک صارفین کے علاوہ کثیر تعداد ایسے صارفین کی ہے کہ جو اپنے موبائل بیلنس کوفضول کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔ میری اس بات سے شاید بہت سارے لوگوں کو اعتراض ہو مگر ایک سوال ہے کہ جس کو سوچ کر ہر شخص خود کو جواب دے کہ اگر وہ اپنے نیٹ ورک پر 100 روپے کا ایزی لوڈ کرواتا ہے تو اس کے اس لوڈ کے ختم ہونے کے بعد وہ خود بتائے کہ اس نے اس بیلنس سے کتنی ایسی کالیں کیں جو کہ اس کی ضرورت تھیں۔ مگر باقی تمام کالیں اس کی ضرورت نہیں تھیں۔ تو یہاں پر تناسب فضول کالوں کا ہی زیادہ ہوگا۔ گویا اس موبائل فون سے پہلے اس کے بجٹ میںموبائل خرچ نہیں تھا مگر اب موبائل بیلنس بڑھ گیاہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موبائل فون سے معاشی نقصان ہورہا ہے۔ جبکہ موبائل فون کا استعمال ضرورت سے زیادہ فیشن کے طور پر کیا جارہا ہے اور فیشن کے معاملے پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہیں وجہ ہے کہ ہر شخص کے پاس دوسرے سے کہیں اچھا اور مہنگا ترین موبائل دیکھائی دیتا ہے اور یہ بھی معاشی نقصان میں شامل ہے۔
موبائل کے استعمال سے جسمانی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین طب بھی گاہے بگاہے مختلف مفید مشورے دیتے اور خطرات سے آگاہ کر تے آرہے ہیں۔ مگر ان کی بات پر بھلا کون کان دھرتا ہے…….؟ یہاں پر تو ایک ہی اصول مرتب کر دیا گیا کہ ” چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کو” اگر ڈاکٹرز کے مشوروں پر عمل کیا جائے توموبائل فونز کے بے جا استعمال کی وجہ سے ذہنی دبائو، پریشان، دل کی بیماریوں، سردرد سمیت کئی دوسری پوشیدہ بیماریاں سر نہ اٹھائیں۔ جبکہ مختلف فری کالز اور فری ایس ایم ایس بنڈلز آفرز سے ساری ساری راتوں کو لگے رہنے والے قوم کے معمار صبح وقت پر نہیں اٹھ سکتے۔ اسی طرح ان کی نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں اور صبح لیٹ اٹھنے کی وجہ سے بھی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ دوسری جانب ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے ماہرین طب کافی پریشان نظر آتے ہیں۔
Mobile Companies
موبائل فون سے تعلیم پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت نئے اور دل کش پیکجز کو دیکھ کر تو نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہیں ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک اور موبائلز زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کر یں۔مگر ان پیکجز سے ہماری نوجوان نسل پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔پھر ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثیر تعداد شعبہ تعلیم سے منسلک ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے ان کے لئے موبائل کے استعمال سے پرہیز کرنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تعلیمی اداروںمیں جہاں پر موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں ہے وہاں پرطلبہ و طالبات دوران لیکچر موبائل پر ایس ایم ایس یا گیم سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں اور جس تعلیمی ادارے میں موبائل فون لے کر آنے میں پابندی ہو وہاں پر طلبہ وطالبات پڑھائی کی بجائے موبائل کو چھپا کر ایس ایم ایس یا گیم وغیرہ پر اپنا وقت ضائع کر تے رہتے ہیں۔
موبائل فون سے فحاشی اور عریانی میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ آج کل مختلف ملٹی نیشنل اور غیر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے نئے نئے سیل فونزکاتعارف کرایا جارہا ہے۔ جن میں ایک سے زائد سموں کے ساتھ ساتھ کیمرے، ایم پی تھری اور فور ، انٹر نیٹ سمیت کئی دوسری ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں کہ جن کا موبائل سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر ہمارا نوجوان طبقہ اس ضرورت کی چیز کو غیر ضرورت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایسے موبائل کہ جن میں کیمرے اور آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اس سے غیر اخلاقی ویڈیوز اور کالز ریکارڈنگ کر کے مطلوبہ فرد کو بلیک میل کرتے اور اس سے اپنے ناجائز مطالبات منواتے ہیں۔ اس کے علاوہ وحیات اور فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے بھی معاشرے میں بہت برا ثر مرتب ہورہا ہے۔
موبائل فون کی فراوانی سے کرائم میں اضافہ ہوا ہے، جس میں خاص طور پر اغواء برائے تاوان، رہزنی کی وارداتیں، جبکہ خود موبائل چھیننے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جن کی تعداد گننے میں نہیں ہے۔ اگرچہ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروںنے کافی حد تک کام شروع کردیا ہے اور ایسے افراد کا گھیرا بھی کیا ہے۔دوسرجانب اس پر ذرائع ابلاغ کے کچھ ادارے بھی اس کام میں عوام الناس کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ مگر کرائم و جرائم اور خود کشیوں کی بڑھتی وارداتوں میں موبائل کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اس سے کہیں زیادہ سکیورٹی اداروں اور ٹیلی کمنیکشن کے اداروں کو اس میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
موبائل فون کے حوالے سے اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں کہ جس کو شمار کرنا ابھی باقی ہے۔ مگر یہاں پر ان 5 قسم کے وہ نقصانات ہیں جو کہ ہم معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدبیریں اور کچھ ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اس اہم ایجاد کو استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جاسکے۔ اس کام میں والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچوں کو واقعی میں موبائل فون کی ضرورت ہے۔ پھر موبائل فون دینے کے بعد ان کے پاس اس چیز کا ریکارڈ بھی موجود ہو کہ ان کے وہ عزیز جن کو موبائل فون دیا گیا ہے وہ کس سے بات کر رہا ہے؟ کیا بات کر رہا ہے؟ اور آیا اس کے موبائل فون پر کوئی اس کو پریشان تو نہیں کر رہا۔بعض اوقات ایسی کالز بھی موصول ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ کم عمر یا حساس طبیعت رکھنے والا آپ کا عزیز ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے کسی بھی وجہ سے وہ اپنی پریشانی کو کسی سے بھی شیئر نہیں کرتا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ سانحہ رونما ہو جاتا ہے کہ جس کا کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔ تو اس بات کی ذمہ داری گھر کے بڑے افراد یا ذمہ دران پر پڑتی ہے کہ وہ موبائل فون پر ہونے والی تمام گفتگو کو اپنے علم میں رکھیں۔
اس کے علاوہ وہ تمام نوجوان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے وقت کوموبائل کی فضول کالوں اور غیر اخلاقی حرکات سے ضائع نہ کریں۔ بلکہ اپنی مکمل توجہ اپنی تعلیم یا ادارے کے امور پر مرکوز رکھیں تاکہ مہنگائی اور کرپشن کے اس دور میں کم از کم اپنے بڑھتے اخراجات کو پورا کیا جاسکا۔