لاہور کے علاقہ شادمان کے ایک چوک کے نام کی تبدیلی کا تنازعہ تو اب ختم ہو چکا ہے لیکن بھگت سنگھ کے چاہنے والے اب بھی ا س کوشش میں ہیں کہ نام بدل دیا جائے۔ چوک کا اصل نام ”چودھری رحمت علی”ہے اور اس نام کے بورڈ برسوں سے وہاں نصب ہیں لیکن عوام اسے فوارہ چوک کے نام سے پکارتی ہے کیونکہ وہاں ایک بڑا فوارہ بنا ہوا ہے۔ باقاعدہ نام کی تبدیلی کا جب میڈیا میں اعلان ہوا تو خلاف توقع علاقے کے لوگوں نے اس پر سخت احتجاج شروع کر دیا حالانکہ ہمارے ہاں تو بڑے بڑے معاملات پر عوام بالعموم خاموش ہی رہتی ہے، آخر ایسا کیوں ہوا…؟اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ بنی کہ چوک کا نام ہمارے ملک پاکستان کا نقشہ بنانے والے اور ہمارے ملک کا نام رکھنے والے تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما اورقومی ہیرو کے نام سے پہلے ہی موسوم تھاجسے ایک ایسے غیر مسلم شخص کے نام سے تبدیل کیا جا رہاتھا کہ جو تاریخ میں ایک دہشت گرد کا کردار رکھتا ہے۔
بھگت سنگھ نے اپنی ساری زندگی میں تین عسکری حملے کئے ۔پہلا ہندوئوں کے تہوار دسہرہ پر۔ دوسرا اپنے چچا لاجپت رائے کا انتقام لیتے ہوئے ایک انگریز پر۔ اس حملے میں بھی وہ انگریز بچ گیا تھا جس نے بھگت سنگھ کے چچا کو مارنے کا حکم دیا تھاجبکہ اس کی جگہ دوسرا افسر غلطی سے مارا گیا۔بھگت سنگھ کے حقیقی دہشت گرد ہونے کی قلعی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اس نے 18 اپریل 1929ء کو مرکزی قانون ساز اسمبلی دہلی پر بموں سے حملہ کیا۔ جب یہ حملہ کیا گیا ، عین اس وقت وہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی موجود تھے۔ یہاں اللہ تعالی نے بانی پاکستان کو بچا لیا تھا۔ اگر خدانخواستہ بھگت سنگھ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جاتا، پھر ذرا سوچئے ! اس کا نشانہ کون بنتا…؟ کیا ہم ایسے شخص کا نام پاکستان میں کسی جگہ رکھنے کے روادار ہو سکتے ہیں۔؟ یہاں سے گرفتاری کے بعد بھگت سنگھ کو جیل ڈالا گیا۔ مقدمہ چلا اور پھر سزائے موت سنائی گئی۔ بھگت سنگھ نے طویل بھوک ہڑتال کی تو ہمارے قائد نے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر ترس کھایا اور رحم بھراایک جملہ ادا کیا۔
بس یہی جملہ بھگت سنگھ کے پیروکاروں کے لئے بنیاد بن گیا کہ نعوذباللہ جیسے قائد اعظم بھگت سنگھ کے مکمل حمایتی تھے۔ قائد اعظم نے تو یہ جملہ پیارے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے تعلیم کی روشنی میں ادا کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کئی گستاخوںاور خون کے پیاسوں کو بھی معاف کر دیا تھا ،حتی کہ آخر دم تک عبد اللہ بن ابی جیسے بدبخت منافق و اسلام دشمن کی خیر خواہی چاہتے رہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کیلئے خاص تھا ،بعد میں امت کیلئے حکم یہی ہے کہ جو کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہو، اسکی گردن اتار دی جائے۔ سویہاں ہمارے لئے بھی تعلیم یہی بنتی ہے کہ اگر قائد نے ایک جملہ ادا کر دیا تھا تو اسے ان کی ذات تک محدود رکھا جائے اور اس کی غلط تشریح و توجیح کر کے بھگت سنگھ کو اپناہیرو نہ بنایا جائے بلکہ اسے اپنے قائد کی جان اور نظریہ پاکستان کا دشمن ہی سمجھا جائے کیونکہ اس نے تو اپنی طرف سے قائد اعظم کی جان لے لی تھی۔
نام بدلنے جب فیصلہ ہوا توعلاقے کے لوگ ،انجمن تاجران شادمان کے صدر زاہد بٹ اور راقم نے لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔مقدمے کی سماعت کے دوران جناب جسٹس ناصر سعید شیخ نے ڈسٹرکٹ ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ لاہور میں مقامات کے نام رکھنے اور بدلنے والی شہری حکومت کی کمیٹی کس قانون کے تحت بنی ہے ؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ میں شہری حکومت کوئی جواب بھی جمع نہ کرا سکی تھی جس پر جناب جسٹس ناصر سعید شیخ کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے میں ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ اور پھر بھگت سنگھ کے پرستار اور شہری حکومت عدالت کا سامنا نہ کر سکے ۔اس کے بعد شہرہ حکومت نے باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر کے چوک کا نام بدلنے کا اپنا فیصلہ ہی واپس لے لیا۔
Pakistan
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے تمام محب وطن دانشور یہ لکھ چکے ہیں کہ ”بھگت سنگھ چوک”سازش کے پیچھے صرف اور صرف بھارتی لابیاں متحرک ہیں اور اس تحریک کا روح رواں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والا متعصب ہندو دانشور کلدیپ نائر ہے۔کلدیپ نائر خود بھی اس کا اقرار کر تاہے۔آپ اس کے کالم پڑھ کر یہ دیکھ سکتے ہیں۔ کلدیپ نائر نے اقرار کیا ہے کہ نام تبدیلی کے لئے اس نے نوازشریف سے خود بات کی تھی اور نام بدلے جانے پر یہاں بڑی ہند و پاک کانفرنس کا پروگرام بھی طے تھا۔ بھگت سنگھ کو انگریز کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا ہیرو قرار دینے والوں سے ہم یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ اگروہ انگریزی استعمارسے اس قدر نفرت رکھتے ہیں تو انگریز کے خلاف لاکھوں جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والے اور انگریز کے اس خطے میں آنے سے لے کر اس کے جانے تک یہاں اپنے خون سے جہاد فی سبیل اللہ کا پرچم بلند کرنے والے مسلمانوں کا نام تک کبھی نہیں لیتے ،آخر کیوں؟ انہیں وہ مجاہد شیر علی آفریدی کیوں بھول جاتا ہے جس نے کالے پانی کے جزیروں پر قید ہونے کے باوجود برصغیر کے وائسرائے رچرڈ لارڈ میو کو وہاں دورے کے دوران 8فروری 1872ء کو واصل جہنم کر دیا تھا اور پھر پھانسی کے تختے پر چڑھ گیا تھا۔تاریخ ایسا معرکہ دکھانے سے قاصر ہے۔
آج لاہور میںاسی انگریز لارڈ میو کے نام سے ملک کا بڑا ہسپتال بھی قائم ہے۔ بتایا جائے کہ اس ہسپتال کا نام آفریدی ہسپتال ہونا چاہئے یا میو ہسپتال…؟ کیا نجم صاحب کبھی اس پر بھی بحث کریں گے یا سوال اٹھائیں گے؟ یہ بھی واضح رہے کہ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو نہیں بلکہ وہ دہشت گرد تھا جس نے دہشت گرد تنظیم ”نوجوان بھارت سبھا”بنائی تھی۔ جس نے بے گناہوں پر حملے کئے۔ وہ ہندوئوں اور سکھوں کی زیر زمین تنظیم’ ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن’ کا بھی سرگرم رکن تھا۔ اس کا چچا”بھارت ماتا سوسائٹی”کا بانی تھا۔ اس نے 1923ء میں کانپور جا کر ہندو کانگرسی چند رور دیاتھی کے اخبار ”پرتاب”میں بلونت کے نام سے کام کیا تھا۔یہ اخبار اول روز سے مسلم مفادات کے خلاف متحرک رہا اور آخر دم تک قیام پاکستان کی مخالفت بھی کرتا رہا۔
یہ بھی سچ ہے کہ بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ قتل عام سے نہیں بلکہ 20 فروری 1921ء کو ننکانہ میں ہندو نرائن داس کے برطانوی حکام سے مل کر 140 سکھ پجاریوں کے گردوارے میں قتل عام سے گہرا اثر لیا اور پھر اپنا ذہن عسکری بنایا تھا۔ موت سے قبل قید کے دوران اس نے پہلے مارکسزم کی تعریفیں کیں اور لینن اور سٹالن کو اپنا رہبر قرار دیا اور پھر بعد میں ”میں خدا کا منکر کیوں ہوں”مقالہ لکھ کر اپنے پکا دہریہ ہونے کا عملی اظہار کر دیا تھا۔ یعنی بھگت سنگھ کی تو زندگی تو ایک ایسا گھن چکر ہے کہ جس کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے اور ایسے دہریہ اور دہشت گرد شخص کو ہمارے ہاں مسلمانوں کا ہیرو بنایا جا رہا ہے۔ یاللعجب یاد رکھیے! بھگت سنگھ کو ہیرو بنانے کا مطلب پاک فوج کے خلاف بھی ایف آئی آر کٹوانا ہوگا جس نے 1971ء کی جنگ میں بھگت سنگھ کی یادگار کو تباہ کیا تھا اور اس کا مجسمہ 1972ء میں پاک فوج اس مقام پر اپنی کامیابی کی نشانی کے طور پر ساتھ لے آئی تھی اور آج تک وہ بھارت کو واپس نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس سارے زمانے میں بھگت سنگھ صرف اور صرف بھارت کا ہیرو تھا اور یہی پاک فوج کو سکھایا گیا تھا بھارت نے ویسے ہی قصور کا وہ مقام حسینی والا جہا ں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی چتا جلائی گئی تھی، پاکستان سے 17 جنوری 1961ء کو اپنے 12 گائوں دے کر ان کے عوض نہیں لیا تھا۔ لیکن آج ہمارے کچھ لوگ نجانے یہ سب کیوں بھول کر ایک بھارتی پٹی پڑھنے پڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔