نواز شریف وزیر اعظم پاکستان پرشگاف الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان میں بہت خون بہہ چکا اب مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہونا چاہیے پارلیمنٹ کے اندر حکومتی طالبان مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا ان کے بیان اور عملی اقدام کو قومی اور عوامی حلقوں میں مثبت طور پر لیا گیا اوردکھوں کی ماری پاکستانی عوام نے اسے تازہ ہوا کا جھونکے سے تعبیر کیا۔
طالبان نے بھی اپنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کر دیا اور دونوں کمیٹیوں کے اجلاس منعقد ہوئے برف پگلی اور قوم نے سکھ کا سانس لیا اس درمیان میں کچھ واقعات رونماء ہوئے اور فوج کو اپنے دفاع میں شمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں سے بمباری بھی کرنی پڑی مگر دونوں طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی سمجھ داری سے معاملات کو کنٹرول کر لیا گیا اسی کو عزم صمیم کہتے ہیں جو ہمارے محترم وزیر اعظم کی طرف سے ظاہر ہوا اور مذاکرات مخالفین کی اعلانیہ اور خفیہ چالوں پر پانی پڑھ گیا محب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان نے غیر مشروت جنگ بندی کا اعلان کر دیا جس پر ہمارے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار صاحب نے پارلیمنٹ کے اندر طالبان کو محب وطن کہا اور صحیح کہا اُدھر جماعت اسلامی کے امیر جناب منور حسن نے کراچی میں جماعت اسلامی کے تحت عظیم الشان تحفظ پاکستان کنونشن میں بیان دیا کہ طالبان پاکستان کے شہری ہیں اور ہمارے بھائی ہیں لیکن ہمارا ان سے یہ اختلاف ہے کہ بندوق کی نوک پر اور طاقت کے زور سے شریعت قائم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی طاقت کے بل پر امن قائم ہو سکتا ہے ان بیانات پر ملک میں کچھ لوگ پریشان ہیں کہ طالبان کو محب وطن اور بھائی کیوں کہا گیا جی مخالفوں کچھ نہ کچھ مواد مل جاتا ہے جس پر منفی سیاست کرنی ہوتی ہے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا فوجی آپریشن پر زور دیتی ہیں یہ دونوں گذشتہ پانچ سال اقتدار میں رہے تو آپریشن کیوں نہ کیا کس نے ان کا ہاتھ روکا ہوا تھا عوام اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ملک میں فوجی آپریشن کیا جائے مشرقی پاکستان کے ملٹری آپریشن نے ملک کو دو لخت کر دیا بلوچستان مین پانچواں ملٹری آپریشن جاری ہے لیکن وہاں کے عوام محرامی سے دو چار ہیں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں ملٹری آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے مذاکرات کی میز بچھی رہنی چاہیے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ بندوق کے زور پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا نواز شریف صاحب نے نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں لیکن ان کے کچھ لوگ مذاکرات کے مخالف ہیں جن سے وہ خودہی نمٹیں۔ جناب حمید گل نے عمرہ سے واپسی پر مولانا سمع الحق سے ملاقات کے دوران کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے سازشوں کو نا کام بنا ہو گا۔
مولانا سمیع الحق نے ابیٹ آباد میں کہا کہ مدارس پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے آج ملک میں جنگ اور فوجی آپریشن کی بات کر رہے ہیں نام نہاد دینی طبقے، سیکولر، لبرل لا بیاں،اینکر ز اور کالم نگار مغرب کے اشاروں پر آپریشن اور جنگ کا خوف برپا کیے ہوئے ہیں ان سب کا ایک بریگیڈ بنا کر اسے طالبان سے مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے تاکہ جنگ کہ شوق جنگ وجدل پورا ہو اور فتح پا کر یہ قوم کے ہیرو کہلا سکیں خوشی کا موقعہ ہے کہ پوری قوم امن چاہتی ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت پیغام، امن کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ اندرونی شورشوں کے خاتمے کا واحد حل ہی مذاکرات ہیں اس لیے حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے نفاظ شریعت کے لیے مسلح جد وجہد شرعی اعتبار سے غلط ہے۔
Government Committee Talks
مذاکرات کے حامی اور ملک کے محب وطن لوگوں کا رویہ تو یہ ہے کہ وہ مذاکرات کی بات ہر فورم پر اور ہر موقعے پر کرتے ہیں لیکن کچھ دوسرے حضرات مذاکرات کی مخالفت میں کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے کچھ اندر ہی اندر مذاکرات کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے جو کوششیں کی تھیں ان کا ثمر ہمیں بھی ملنا چاہیے ان میں جمعیت علمائے اسلام کئی دفعہ اپنے جرگے کی بات دوہرا چکی ہے 19 مارچ کو اس کے سربراہ نے کہا کہ ہم مذاکرات سے مطمئن نہیں تاہم ملک میں امن کے لیے دعا گو ہیں 20 مارچ کو بیان دیا طالبان ہی نہیں تمام گروپوں سے مذاکرات ہونے چاہییں22 مارچ کو کہا کہ مذاکرات کا مکینزم تبدیل کیا جائے تو کردار ادا کر سکتے ہیں قبائلی جرگے کو اختیار دیا جائے تو کامیابی یقینی ہے جناب ٹھیک ہے آپ نے بھی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی تو موجودہ پروسس کو تو پوری طرح کامیاب ہونے دو اس میں تو مین میخ تو نہ نکالیں عوامی نیشنل پارٹی کے راہ نما میں افتخار حسین صاحب فرما رہے ہیں۔
حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات محض ٹوپی ڈرامہ ہے جناب آپ کی خیبرپختونخواہ میں حکومت کے دوران تو آپ طالبان کو ختم کرنے کے سارے حربے استعمال کر لیے تاکہ امن قائم ہو سکے مگر بوجہ نہ ہو سکا اب تھوڑا صبر کر لیں مذاکرات مکمل ہونے دیں اس سے آپ کے صوبے میں بھی امن وامان قائم ہو جائے گا جو شاید آپ کے وقت نہ ہو سکا اس کے بعد کچھ مسلکی عناصر ہیں جو صرف اس بات کی وجہ سے مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ طالبان ان کے مسلک کے نہیں لہٰذا ان کو سبق سیکھانا چاہیے اور فوجی آپریشن ہو نا چاہیے وہ اس کے لیے زبانی کے ساتھ ساتھ مظاہرے بھی کرتے ہیں مگر ان حضرات سے درخواست ہے کہ کہ وہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں کیا طالبان کی جنگ ان سے ہے؟ کیا کبھی بھی طالبان نے ان کو نقصان پہنچایا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور واقعی نہیں ہے تو ان کو اس معاملے میں قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے اپنی سوچ کو صحیح سمت میں درست کر لینا چاہیے۔
اگر ملک میں امن ہو تا ہے تو سب کو فائدہ پہنچے گا جس میں آپ بھی شامل ہیں ملک لڑائی کے ماحول سے نکل کر ترقی کے راستے پر گامزم ہو جائے گا وزیر داخلہ سے امریکی سفیر رچرڈ اولس نے بھی ملاقات کی جس میں مذاکرات کے متعلق بھی بات چیت ہوئی امریکی سفیر نے اپنے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کیا اللہ کرے حکومت امریکا کے کسی بھی دبائو کے بغیر مذاکرات مکمل کرے تاکہ ملک میں امن وامان قائم ہو۔
قارئین! حکومت کی قائم کی گئی چار رکنی کمیٹی کی حکومت سے مشاورت ہو چکی ہے جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک ہوئے ہیں جس کو راہ نما اصول سے آگاہ کر دیا گیا ہے ادھر طالبان نے بھی اپنی شوریٰ کی چار رکنی کمیٹی بنا دی ہے جو خوش آیند ہے دونوں طرف مذاکرات کے لیے صحیح سمت میں کوششیں ہو رہیں ہیں تمام ملک کے عوام امن کے لیے دعا گو ہیں ملاقات کی جگہ کا بھی تعین ہو چکا ہے اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان میں ہر حال میں امن قائم ہو ملک ترقی کرے عوام آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں اللہ پاکستان کو نظر بد سے بچائے آمین۔