غزل

Love

Love

جس کی قربت میں قرار بہت تھا
اس کا ملنا دشوار بہت تھا
جو میرے ہاتھ کی لکیروں میں نہ تھا
اس شخص سے ہمیں پیار بہت تھا
دکھ کی ٹھیس ہمیں سہنا ہی تھی
اک شخص پر ہمیں اعتبار بہت تھا
جس کو میرے گھر کا راستہ معلوم نہیں
اسی کا دل کو انتظار بہت تھا
صبح سے شام ہوئی اس کے ساتھ اکثر
باتوں میں ابھی ا ختصار بہت تھا
نئے زخموں کی خبر ابھی نہیں ہوئی
پہلی ہی چوٹوں کا خمار بہت تھا
نہ چاہتے ہوئے کاشف اسے بھلایا
کیا کرتے اس کا اصرار بہت تھا

تحریر:کاشف منصور احمد بھٹی
فاروق آباد(پاکستان)