اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کی تقرری کے خلاف کیس میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو فریق بننے کی اجازت دے دی ، جسٹس دوست محمد نے کہا کہ عام انتخابات میں بہت سے اختیارات عوامی نمائندوں کودے دیئے گئے ، اس طرح ہر شخص کا اعتراض سننے لگے تو اٹھارہ کروڑ عوام عدالت آ جائے گی۔
جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے چیئرمین نیب کی تقرری کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔عدالت نے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔ درخواست گزار عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں قمر زمان چودھری کے خلاف فیصلہ دیا۔ عدالت نے جس شخص کے خلاف فیصلہ دیا اسے چیئرمین نیب لگا دیا گیا۔
خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اس کیس میں وفاقی ٹیکس محتسب رؤف چودھری کے خلاف بھی فیصلہ آیا تاہم عدالت نے رؤف چودھری کی تقرری کی توثیق کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں مک مکا کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے، یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ درخواست گزار محمود اختر نقوی نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری نیب آرڈیننس کے بھی خلاف ہے۔
جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ جب آپ نے عام انتخابات میں ووٹ دیا تو بہت سے اختیارات اپنے نمائندوں کو دیئے اگر اس طرح ہر شخص کا اعتراض سننے لگے تو اٹھارہ کروڑ عوام عدالت آ جائیں گے پھر ہم کیا کریں گے۔
وزارت قانون کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق رولز میں ترمیم کی گئی تھیں۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ سول سرونٹس کی تقرری کے لیے رولزمیں ترمیم کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے،وہ کہاں ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاملہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا نہیں، لاء ڈویژن سے متعلق ہے۔
عدالت نے درخواست گزار محمود اختر نقوی کو وزارت قانون کا جواب حاصل کر کے دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔چیئرمین نیب تقرری کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔