ابن سعود کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سعود بن عبدالعزیز تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد کے شروع کیے گئے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھا۔ ان کے زمانے میں تیل سے ہونے والی آمدنی میں مزید اضافہ ہوا جس سے ترقیاتی کاموں کی رفتار میں مزید اضافہ ہوا۔
مکہ میں ایک طاقتور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا، مکہ و مدینہ اور دوسرے شہروں کے درمیان پختہ سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ صنعتوں کی داغ بیل ڈالی گئی اور دمام اور جدہ کی بندرگاہوں کو جدید طرز پر تعمیر کیا گیا۔
شاہ سعود کے عہد حکومت کا ایک بڑا کارنامہ مسجد نبوی اور حرم کعبہ کی توسیع ہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر پر 35 کروڑ روپے صرف ہوئے اور تعمیر کا کام 1955 میں مکمل ہوا۔ جس سے مسجد فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار بن گئی اور دنیا کی بڑی اورخوبصورت ترین مساجد میں شمار ہونے لگی۔ حرم کعبہ کی مسجد کی توسیع کا کام مسجد نبوی کی تکمیل کے فورا بعد شروع کیا گیا۔
شاہ سعود کے زمانے میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی۔ 1957 میں دارالحکومت ریاض میں عرب کی پہلی جامعہ قائم ہوئی جس میں فنون، سائنس، طب، زراعت اور تجارت کے شعبے قائم کیے گئے۔ 1959 میں لڑکیوں کے لیے بھی مدارس قائم ہونا شروع ہو گئے۔
مکہ میں شریعت کالج قائم کیا گیا اور 1960 میں مدینہ میں اعلی دینی تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ کے نام سے دینی یونیورسٹی قائم کی گئی جہاں دینی تعلیم کے علاوہ طلبہ کو افریقہ میں اسلام کی کی تبلیغ کے لیے بھی تربیت دی جاتی تھی۔ 1957 میں شاہ سعود نے امریکہ کا دورہ کیا اور ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ سے اسلحہ کی خریداری شروع کی۔
حالانکہ شاہ سعود کے دور میں سعودی عرب میں تیزی سے ترقی ہوئی لیکن شاہی خاندان کے افراد کی بے قید زندگی اور فضول خرچیوں نے ملک کے لیے بہت سے مسائل پیدا کردیے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ مالیات کا تھا۔ پٹرول سے ہونے والی کثیر آمدنی کے باوجود سعودی عرب کی مالی حالت خراب ہوتی جارہی تھی اور ریال کی قیمت گر گئی تھی۔
اس کے ساتھ شاہ سعود کے زمانے میں عرب دنیا میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ عربوں میں انتہا پسندانہ قوم پرستی، نسل پرستی، مذہب سے بیزاری، بعث پارٹی کے غیر اسلامی افکار اور سوشلزم کا عروج کا یہی دور تھا۔ مشرق کے عرب ممالک جن کا سرخیل مصر تھا، ان نظریات کی وجہ سے سعودی عرب کے دشمن بن گئے اور سعودی حکومت کو امریکہ کا ایجنٹ کہہ کر بدنام کرنے لگے۔
شاہ سعود میں اتنا تدبر اور صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ملک کو ان اندرونی اور بیرونی خطرات سے نجات دلا سکتے۔ یہ صلاحیت ان کے دوسرے بھائی فیصل میں موجود تھی جو شاہ سعود کے دور میں حجاز کے گورنر اور ملک کے وزیر خارجہ تھے۔ چنانچہ شاہی خاندان اور علما کے دبائو کے تحت 24 مارچ 1958 کو شاہ سعود نے تمام ملکی اختیارات شہزادہ فیصل کے سپرد کردیے اور شاہ سعود کی حیثیت صرف آئینی بادشاہ کی رہ گئی۔
مکمل انتظامی اختیارات سنبھالنے کے بعد شہزادہ فیصل نے جو اصلاحات کیں ان سے ان کی انتظامی صلاحیت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ انہوں نے شاہی خاندان کے اخراجات پر پابندی عائد کی اور دوسری معاشی اصلاحات کیں جن کی وجہ سے سعودی عرب کی اقتصادی و مالی حالت مستحکم ہو گئی۔
اسی زمانے میں شہزادہ فیصل نے غلامی کی رسم کو جو اب تک سعودی عرب میں رائج تھی، ختم کردیا۔ شہزادہ فیصل کے بڑھتے ہوئے اثرات سے شاہ سعود نے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور اپنے بھائی کی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ آخر ایک مجلس نے جو شاہی خاندان کے ایک سو افراد اور ستر علما پر مشتمل تھی، 29 اکتوبر 1964 کو شاہ سعود کو تخت سے اتار دیا اور امیر فیصل کو ان کی جگہ بادشاہ نامزد کردیا۔
اس کے بعد شاہ سعود نے یورپی ممالک میں زندگی گذاری جن میں سب سے پہلے انہوں نے جنیوا، سوئٹزرلینڈ کا انتخاب کیا تاہم نے انہوں نے دیگر شہروں میں بھی قیام کیا اور بالآخر 1966 میں ایتھنز، یونان میں انتقال کر گئے۔