خواجہ خورشید انور نے 1935 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ ان کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک کامیاب تمثیل نگار، شاعر اور ہدایتکار بھی تھے۔
پاکستان کے مشہور موسیقار۔ میانوالی میں پیدا ہوئے۔ مہدی حسن کی آواز میں مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے، نورجہاں کی آواز میں دل کا دیا جلایا، رم جھم رم جھم پڑے پھوار اور ان جیسے ان گنت لافانی گیتوں کے خالق۔ ان کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔
خواجہ خورشید انور نے 1935 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کرنے کے بعد 1936 میں آئی سی ایس کا امتحان تو پاس کرلیا لیکن کالج کے ابتدائی زمانے میں جب انقلابی تنظیم نوجوان بھارت سبھا کے رہنما بھگت سنگھ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ لاہور بوسٹل جیل میں سزائے موت کا انتظار کررہے تھے۔
تو اِسی تنظیم کا رکن ہونے کی پاداش میں خواجہ صاحب کو جیل جانا پڑا اور بعد میں یہی وجہ رہی کہ انگریز سرکار نے انہیں انڈین سول سروس کے لئے مناسب نہ سمجھا۔
خواجہ خورشید انوراپنے عہد کے اس عظیم موسیقار کے تخلیقی سفر کا آغاز ویسے تو 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوتا ہے لیکن یہ بات 1941 کی ہے جب ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کی پہلی فلم کڑمائی بمبئی اب ممبئی سے ریلیز ہوئی۔ اور یوں گلوکارہ راجکماری کی آواز میں ماہی وے راتاں سے خواجہ صاحب کے فلمی موسیقی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
1953 میں بمبئی سے لاہور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار ہیر رانجھا اور کویل جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔ فلم انتظار کا گانا چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار خواجہ صاحب کی موسیقی میں گلوکارہ نورجہاں کا گایا ہوا پہلا گانا ہے۔
خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک کامیاب تمثیل نگار، شاعر اور ہدایتکار بھی تھے۔ بحیثیت ہدایتکار انہوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگٹ جیسی فلمیں بنائی اور اِن فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض کے ساتھ ان کی بہت اچھی دوستی رہی۔
دنوں ایک ہی سال میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ خواجہ صاحب نے اپنی پوری زندگی فن کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی موت پر احمد راہی نے کہا کہ عزت کی روٹی تو سب کھاتے ہیں لیکن عزت سے بھوکا رہنا صرف خورشید صاحب کو آتا تھا۔