گزشتہ ہفتے بھارت میں کشمیری طلباء پر ایک بار پھر ظلم و جبر کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جہاں راجستھان کی ایک یونیورسٹی میں ان کی مارپیٹ کی گئی تو دوسری طرف میرٹھ کی اسی سوامی و ویکانند بھارتی یونیورسٹی سے مزید چھ کشمیری طلباء کو خارج کر دیا گیا جہاں سے اس سے پہلے 67 کشمیری طلباء اس جرم کی پاداش میں نکالے گئے تھے کہ انہوں نے کرکٹ میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان 67 طلباء کو دھکے دیکر ہاسٹل سے نکالا اور جبراً بھوکا پیاسا مقبوضہ کشمیر روانہ کر دیا گیا تھا۔ ان پر غداری کے مقدمات بھی بنائے گئے تھے۔ جب مقبوضہ کشمیر کے بعد پاکستان اور پھر دنیا بھر میں بھارت کی اس حوالے سے مذمت ہوئی تو بھارت نے ان طلباء کو دوبارہ یونیورسٹی میں داخلہ دینے کا بھی اعلان کیا تو غداری کا مقدمہ بھی واپس لینے کی بات ہوئی۔
۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جیسے تیسے معافی تک مانگ ۔جواب میں ان طلباء نے جواب میں کہا کہ انہیں میرٹھ یونیورسٹی میں جان کا خطرہ ہو گا۔ لہٰذا انہیں اس بات کی پہلے مکمل یقین دہانی کروائی جائے کہ انہیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا تو وہ دوبارہ یونیورسٹی میں جا سکتے ہیں۔ چند روز گزرے ،معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو بھارت نے اس سب کے باوجودپہلے سے نکالے گئے طلباء کو واپس لینا اور انہیں دوبارہ سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا موقع دینا تو کجا، مزید 6کشمیری طلباء کو اسی پاداش میں یونیورسٹی سے خارج کر کے بتا دیا کہ کچھ بھی ہو جائے بھارت کشمیریوں سے نصاف توکجا معمولی رعایت بھی نہیں برتے گا۔
یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس کے فوری بعد راجستھان یونیورسٹی میں کشمیری طلباء پر شدت پسند تنظیموں سے وابستہ ہندوطلبا نے نے عین نماز کے دوران ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کئی کشمیری طلباء زخمی ہوئے تو کئی زخموں سے چور ہو کر بے ہوش ہو گئے جنہیں ہسپتال داخل کیا گیا۔ اتنی کھلی دہشت گردی کے باوجود بھارت میں مکمل خاموشی ہے تو باقی دنیا میں بھی سکوت، یعنی کشمیریوں کے ساتھ جو بھی بیت جائے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ اب ملالہ پر ہونے والے حملے کو تعلیم پر حملہ قرار دے کر زمین و آسمان ایک کر دینے والے ، اسے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم قرار دے کر ملالہ کو انسانی تاریخ کی سب سے عظیم شخصیت قرار دینے والے بھی خاموش ہیں ۔انہیں بھارت کی جانب سے کشمیری طلباء پر کھلا ظلم و جبر اور ان کی تعلیم اور قیمتی وقت کا ضیاع اور زیادتی وغیرہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان طلباء کے حق میں کہیں کوئی بات نہیں ہو رہی ہے… کیوں؟… صرف اس لئے کہ یہ طلباء مسلمان ہیں اور ان کا تعلق اس کشمیر سے ہے جہاں یہ لوگ بھارت سے آزادی کیلئے اپنے خون کی قربانی دے کر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہی ان کا جرم ہے، ورنہ ملالہ کے نام پراندھیر مچانے والے اب کیوں اندھے، گونگے، بہرے بنے ہوئے ہیں؟انسانی حقوق کے نام دنیا میں اودھم مچانے والے ادارے ہوں یااقوام متحدہ یا پھر خود مہذب کہلانے والے مغربی ممالک ،سب کی زبانیں گنگ اور آنکھیں بند ہیں۔
Pakistan
اسی مغرب کی جانب سے آج کیا ملالہ کو ہر جگہ کیا صرف تعلیم کے نام پر ہی پیش نہیں کیا جاتا؟ اس کے ذریعے مغرب پاکستان اور پاکستانی خوب خوب رگیدتا ہے۔ دن رات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے پاکستان دنیا کا وہ ملک ہیں جہاں انسان اور انسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔سارے پاکستانی پرلے درجے کے جاہل ،ان پڑھ ،اجڈ اور پتھر کے دور کی نسل ہیں جنہیں اب ملالہ تعلیم و تہذیب سکھائے گی۔وہ تو خیر سے ملالہ نے اپنی کتاب کے ذریعے خود ہی کافی کچھ واضح کر دیا کہ اس کا ایجنڈہ کیا تھا اور اس کے اس ساری کہانی کا مقصد و مدعا کیا تھا۔ ہمارے لوگوں کا بھی کمال دیکھئے کہ اسی ملالہ کے کیس کو سمجھنے اور اس سازش کا پول کھولنے کے بجائے 23 مارچ کے قومی دن پر اسے بھی خصوصی اعزاز سے نوازا گیا کہ کہیں ہم سے مغرب ناراض نہ ہو جائے کہ ہم نے اس کی نقالی میں کسی قسم کی کوئی کسر چھوڑی ہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ کشمیری قوم دنیا بھر کی ذہین قوموں میں شمار ہوجاتی ہے۔ یہاں کی نسل نو میں صلاحتیں بھی موجود ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جب یہاں کے طلباء کو اپنی مقبوضہ ریاست سے باہر جاکر اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع مل جاتا ہے تو اْن کی ذہنی اور فکری سوچ کے دروازے بھی وا ہو جاتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں کہ انہیںجان بوجھ کر ترقی سے دور رکھا جارہا ہے اور وہ بھارت ظلم و ستم اور اس کی غلامی کے معانی بھی سمجھ جاتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ نئی دہلی میں کام کرنے والی کشمیر مخالف لابی کو بھی ہے۔صرف اِسی وجہ سے جان بوجھ کر بیرون ریاست کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ کشمیری طلباء کے تعلیمی کیرئیر کو تباہ کیا جاتا ہے۔صرف گزشتہ چند سال پر ہی نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دے گا کہ بھارت کے کتنے علاقوں میں کشمیری طلباء کو مارا پیٹا گیا۔ انہیں تعلیم اداروں سے نکالا گیا۔کتنوں کی تو لاشیں ہی گھروں میں پہنچیں اور کتنے ہمیشہ کے لئے لاپتہ کر دئیے گئے۔یہاں ان طلبا کو جعلی مقدمات میں ملوث کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے ناقابل معافی حربے ہیں جو کشمیریوں کو دماغی طور پر مفلوج بنانے کے لئے اور انہیں پریشان رکھنے کے لئے بروئے کارلائے جاتے ہیں۔ یہ سازشیں ہیں جو اس قوم تعلیم کے میدان سے دور رکھنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ صرف یہی نہیں، معاشی میدانوں میں بھی کشمیریوں کو تہی دامن بنا نے کے لئے امرتسری شال، شملہ سیب، نقلی زعفران اور شاہ توس شال پر فضول پابندی جیسی چیزوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔کشمیریوں پر بھارت کے مظالم تو اس قدر ہیں کہ انہیں شمارکرنا بھی ممکن نہیں لیکن دنیا میں اس طرف کبھی کوئی نگاہ بھی اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔
حیرانی تو حکومت پاکستان پر ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف کشمیر کے اپنا حصہ ہونے کی دعویدار ہے تو دوسری طرف ان طلباء پر ہونے والے اس کھلے ظلم و جبر پر خاموش۔ ہماری اس خاموش پالیسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے ہمیں ایک بار پھر ان شہریوں کے ناموں کی فہرست پیش کر دی ہے جن کو وہ اپنے لئے مطلوب سمجھتا ہے، ان شخصیات میں سب سے بڑا نام پروفیسر حافظ محمد سعید کا ہے یعنی وہ شخصیت کہ جسے پاکستان کے کروڑوں لوگ وطن کا محافظ، اسلام کا سپاہی اور مظلوم مسلمانوں کیلئے امید کا مرکز سمجھتے ہیں، کو بھارت طلب کرتا پھرتا ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ بھارت ہی ہے کہ جو ایک طرف اس بات کیلئے بے چین ہے کہ پاکستان اس کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ دے کر اس کیلئے اپنے ملک کے سارے دروازے کھول دے۔اسے افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی بھی دے دے لیکن وہ یہ سب کچھ ہماری گردن پر لات رکھ کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہمارے ملک کے کتنے حصوں پر قابض ہے، اس نے ہمارے ملک کا پانی تک بند کر کے ہمیں بنجر و صحرا میں تبدیل کر کے ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کا پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ وہ اس کی طرف تو نگاہ ڈالنے کا نام نہیں لیتا لیکن وہ ہم سے ہمارے ہی معزز و محترم ترین شہری بلکہ ملک و ملت کے حقیقی محافظ طلب کرتا پھرتا ہے۔
بھارت کی کوشش یہ ہے کہ وہ پاکستان سے دوستی بھی کرے تو صرف اس شرط پر کہ جو وہ چاہے گا پاکستان وہ سب کچھ بلاچوں چراں کرتا چلا جائے گا۔ یہ کیسی دوستی ہے؟ یہ کیسی تعلقات کی بہتری ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ہماری کمزور پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے اوپر دبائو ڈالتا اور ہمیں پریشان کرتا ہے، اس کی یہ بدمعاشی اسی دن ختم ہو جائے گا جب جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائیں گے۔ ویسے تو وزیر اعظم نے ہیگ کانفرنس میں اس کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ ہیگ کانفرنس پاکستان کے ہی ایٹمی پروگرام کے خلاف تھی۔ دنیا یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ پاکستان کا ایٹم بم اور ایٹمی پروگرام خطرے میں ہے۔اس سے ساری دنیا کو خطرات لاحق ہیں لیکن یہاں جناب نواز شریف نے ہر سوال اور ہر جارحیت کا صحیح معنوں میں دفاع کیا اور دشمنوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہی پالیسی بھارت کے حوالے سے تمام معاملات میں اگر اپنا لی جائے تو ہمارے مسائل حل ہونے اور کشمیر آزاد ہونے میں چنداں دیر نہیں لگے گی۔