تھر میں قحط سالی اور غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک دو نہیں بلکہ دو سو سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے دورہ کر لیا۔ سندھ حکومت بھی پہنچی ، مالی امداد کے وعدے کئے گئے جو تاحال پورے نہیں ہو سکے قحط سے متاثرہ تھر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی امداد کے اعلانات محض زبانی دعوے ثابت ہوئے ، وفاقی حکومت کی جانب سے مالی امداد کے بلند بانگ دعوے کیے جا رہے ہیںوفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشید کہتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے تھر متاثرین کے لیے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا تھا، جن میں سے 50کروڑ روپے وزارت خزانہ تھر قحط سالی کے متاثرین کیلئے جاری کر چکی ہے۔
بقایا 50کروڑ روپے رواں سال مئی میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ مگر یہ مالی امداد کہاں اور کسے دی گئی ہے کسی کو کچھ پتا نہیں ؟ جبکہ سندھ حکومت نے بھی تھر میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے فی کس دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا تھا جس کا بھی تاحال پتا نہیں چل سکا ہے۔ تھر کے صحرا میں دور دراز کے دیہات میں واقع کنووں کا پانی کڑوا ہو گیا ہے اورپانی کی سطح کم ہونے سے کئی کنویں خشک ہو گئے ہیں۔صحرائے تھر میں پیدا ہونے والی ہر عورت اپنے ساتھ زندگی بھر پینے کے پانی کی مشقت کا نصیب لے کر آتی ہے۔اونچے نیچے ریتیلے ٹیلوں کی راہگذر میں میلوں کی مسافت اور کئی کئی سو فٹ گہرے کنووں سے پانی کھینچنے کی محنت کے بعد جو پانی انہیں حاصل ہوتا ہے وہ پینے کے لائق ہر گز نہیں ہوتا مگر بحالت مجبوری اس پانی کے استعمال سے کئی بیماریوں کے عیوض زندگی کی ڈور ضرور بحال رکھی جاتی ہے۔
شاید یہ مشکلات کم ہی ہوں گی جب ہی تو خشک سالی نے قحط کا روپ دھار کر ان ان تھری خواتین کے مصائب مزید بڑھا دی ہیں دور دراز کے دیہات میں واقع کنووں میں نہ صرف پانی کی سطح گر گئی ہے بلکہ درجنوں کنویں خشک ہو چکے ہیں اس صورتحال سے اناج کے دانے دانے کو ترسنے والے مکین اب پانی کی بوند بوند کو بھی ترس رہے ہیں۔دور دراز کے دیہی علاقوں میں پہلے ہی خوارک اور ادویات کی فراہمی سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے اور اب کنووں میں پانی کی سطح کے گرنے اور انکے خشک ہونے کی صورتحال مذید بگڑ رہی ہے۔جہاں پانی موجودہے وہاں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ تھرپارکر میں قحط سالی کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہونے والے سول اسپتال میں نومولود بچہ، چھاچھرو کے گاؤں چارنور میں4 ماہ کی سکینہ چلیار میں5سالہ مکیش کمار، اسلام کوٹ کے نجی اسپتال میں ڈیڑھ سالہ پریمی کولہی، تعلقہ اسپتال ننگر پارکر میں4 سالہ بچہ وسرام کولہی اور گاؤں بندنالس کا رہائشی10 سالہ زاہد میانو، مٹھی کے گاؤں بپوہار میں3 سالہ تاری بھیل اور گاوں کنبھیکی ڈانی 3 ماہ کی پوپٹی میگھواڑ انتقال کر گئی۔ بھوک و بدحالی سے مرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو چکی ہے مگرحکمران صرف اور صرف اجلاس اور امداد کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج گاؤں ایدے کاتڑ کی رہائشی معمر خاتون مرواں انتقال کر گئی، جبکہ مٹھی میں54، ڈیپلو میں 10، اسلام کوٹہ میں 30، چھاچھرو میں 40،134 ڈائریا سمیت دیگر امراض میں مبتلا بچے زیر علاج ہیں، بستر کم پڑنے کے باعث چارپائیوں اور بینچوں کو بیڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سرکاری امدادی گندم کی تقسیم سست رفتاری سے جاری ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب صرف 22000 خاندان گندم سے محروم ہیں، جب کہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق50 ہزار سے زائد خاندان اب بھی گندم کے منتظر ہیں۔ جب کہ اب تک مویشیوں کے لیے چارہ بھی نہیں مل سکا ہے، لوگوں کی بڑی تعداد کی نقل مکانی جاری ہے۔
Sindh High Court
سندھ ہائی کورٹ کے مقرر کردہ ریلیف انسپیکٹنگ جج میاں فیاض ربانی نے گوٹھ آمریوں میں گندم کی مبینہ خوردبرد کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو گندم کیخوردبرد کرنے والے ڈیلر کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پاک فوج، نیوی، سعودی عرب،جماعة الدعوة، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن، و دیگر فلاحی تنظیموں کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ جماعة الدعوة کی فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کی میڈیکل ٹیموں نے 72 کیمپوں کے ذریعہ 25 ہزار سے زائد مریضوں کا طبی معائنہ کیا اور لاکھوں روپے کی ادویات بھی متاثرین میں تقسیم کی گئیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی ٹیمیں مٹھی سمیت تحصیل ڈیپلو، چھاچھرو،اسلام کوٹ اور نگر پار کے دور دراز گوٹھوں میں پہنچ کر متاثرین کا علاج معالجہ کر رہی ہیں۔قحط زدہ علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مسلسل گندا پانی پینے سے تھر پارکر کے لوگوں میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔خاص طور پر ہر دوسرے شخص میں پیٹ کی بیماریاں عام ہیں جبکہ بچوں کی بیماریوں کی بڑی وجہ عورتوں کی غذائی قلت ہے۔فلاح انسانیت فایونڈیشن کی میڈیکل مشن کی ٹیموں کے ہمراہ ایمبولینس گاڑیاں بھی ہیں جو موبائل میڈیکل کیمپنگ کے ذریعہ دور دراز علاقو ں میں جا کر مریضوں کا علاج معالجہ کر رہی ہیں۔جماعة الدعوة کے تحت خشک رشن کی تقسیم بھی کی جا رہی ہے۔سات ہزار کے قریب خاندانوں میں خشک راشن کے پیکٹ جن میں ایک ماہ کی اشیائے ضروریہ شامل ہیں تقسیم کئے گئے۔بچوں کے لئے خصوصی طور پر نرم غذا کے پیکٹ بھی تقسیم کئے گئے۔تھر کے دور دراز علاقوں میں جماعة الدعوة کی امدادی ٹیمیں گاڑیوں ،اونٹوں پر جا کر امدادی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف اور جماعة الدعوة سندھ کے ترجمان خالد سیف تھر پارکر میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔سینکڑوں رضاکار امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔تھرپارکر میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بنیادی سہولیات فراہم کرنے اور لوگوں کے معیار زندگی کومستقل طورپر بہتر کرنے کے لئے حکومت سندھ نے تھرڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے )کے قیام کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تھر پارکر کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی خشک سالی سے متاثرہ نہ ہو۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات کو دو ہفتے کے اندر فزیبلٹی رپورٹ مکمل کرنے کے احکامات دیئے ہیں تاکہ ٹی ڈی اے بل کے مسودے پر آئندہ کا بینہ اجلاس میں غور خوض کر کے حتمی منظوری سندھ اسمبلی سے لی جا سکے۔
تھر کے متاثرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں اور امدادی پیکیج کے اس کھیل میں متاثرین فٹبال بن کر رہ گئے ہیں۔ ” تھر” میں 200 سے زائد معصوم بچوں کی ہلاکت سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں گندم کی عدم تقسیم، دوائیں نہ ملنے اور سردی کے باعث ہوئی ہیں۔ سندھ کلچر کے رکھوالے تھر میں معصوم بچوں کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
بھوک کی وجہ سے 2 لاکھ خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تھرپارکر میں قحط سالی نیا مسئلہ نہیں ہے اس لئے حکومت سندھ کو اس سے تیاری پہلے ہی کرلینی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ جب کوئی مسئلہ آفت کی صورت اختیار کرتے ہوئے میڈیا میں آتا ہے تو متعلقہ ادارے اور حکومت جاگتی ہے۔ اگر قوم کے بچے بھوک، پیاس اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہوں تو ایسی ریاست میں حکومت کو اپنی”رٹ” قائم کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ تھرپارکر کے بچوں کی اموات کی ذمہ دار سیاسی حکومت اور بیورو کریسی ہے۔تھر کے مسائل کا مستقل حل کرنا چاہئے تا کہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔