میں اکثر کچے کے لوگوں کا قرض لفظوں کی شکل اتارنے میں ناکام رہتا ہوں یا اتار نہیں سکتا تھل کا چاچا گاموں کہتا ہے کہ اس وقت تھل آباد نہیں ہوا تھا تھلوچی لوگوں کی روزی رحمت باراں کی مر ہون منت ہوا کرتی تھیبے آب و گیاہ صحرا میں تا حد نظر ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہوتے تھے تحصیل چوبارہ میں جائیں تو آج بھی یہ ٹیلے اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں بارش برستی تو تھل کی پیاسی دھرتی کے خشک لب تر ہو جاتے اور تھل کے لوگ تر وتر میں رحمت باراں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی فصل کاشت کر لیتے تھلوچی جب اکثر رحمت باراں کی آمد کے انتظار میں مایوس ہو جاتے تو اپنے مویشی لیکر نشیبی علاقے کا رخ کرتے جو ایک جنت نظیر ٹکڑا اور سونا اگلتی زمیں کا قطعہ اراضی تھا۔
نشیبی علاقہ کے لوگ ملن سار، باوفا،دوستی میں حد سے گزر جانیوالے اور دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تھے یہ لوگ نہ صرف ہمارے ڈھور ڈنگروں کے لیے چارہ مہیا کرتے بلکہ ہمارے لیے قیام و طعام کا طویل عرصہ انتظام کرکے اپنی مہمان نوازی کا بھر پور ثبوت دیتے تھلوچی جب عرصہ بعد تھل واپس لوٹتے تو کچہ کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی ہوتی تھل کینال کی بنیاد پڑی اور تھل کی آباد کاری شروع ہوئی تو تھل کے لوگوں کی نشیبی علاقہ کے لوگوں کے ہاں آمدورفت بتدریج کم ہوتی گئی لیکن نشیبی علاقہ کے لوگ اپنی مہمان نوازی ، دیرینہ تعلق،دوستی اوروفا کی روایت کو نہ توڑ سکے وہ اپنے تھلوچی دوستوں کے ہاں تواتر سے آتے رہے اور ان کیلئے کچے کے مشہور تحفے آم اور کھجوروں کے ٹوکرے لا کرا پنی محبت کا ثبوت دیتے رہے وقت کا دھارا اپنی مخصوص رفتا ر سے چلتا رہا۔
پھر وہ دریا جو انکی معاشی ترقی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا اس دریا نے ان لوگوں کی قیمتی زرعی اراضی کو نگلنا شروع کر دیا بستیاں تاراج ہونے لگیں کچے کے لوگوں کی معاشی حالت تباہ ہونا شروع ہوگئی انکی نہ معاشرت رہی اور نہ ہی تہذیب وہ مخصوص مسکراہٹ جو کچے کے لوگوں کے چہرے کا حسن تھی چھن گئی آج دس برس بعد ان لوگوں کے پاس نہ گھر ہے نہ قیمتی اراضی اور نہ ہی وہ مخصوص مسکراہٹ جو انکی دوستی کا خاصا ہو اکرتی تھی اس تباہی میں چالیس ہزار لوگ بے گھر ہو گئے صاحب اقتدار لوگوں نے کروڑوں کے سپر بنا کراپنے رقبے بچا لیے اور جن لوگوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے انہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا کچے کے وہ لوگ جو دوسروں کو عزت دیا کرتے تھے انکی عزت نفس بھی باقی نہیں رہی۔
بڑے قطعات اراضی کے مالک کچے کے یہ لوگ تھلوچی لوگوں کے بیلی(نوکر) ہیں کچے کے لوگوں کی اکثریت لیہ کی شاہراہوں پر رْل رہی ہے انکے ہاتھوں میں کاسہء گدائی ہے بھیک کی رقم پر انکی معشیت کی سانسیں چل رہی ہیں دریا کا زمیںکو نگلنے کا سلسلہ تواتر سے جاری ہیتخت لاہو ر کے وارثوں نے جب بھی لیہ کی سر زمین پر اپنے قدم رنجہ فرمائے تو لیہ کے وقت کے حاکموں نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ان زخم زخم لوگوں کے نام پر کروڑوں کے فنڈز کا علان کروایا لیکن یہ کثیر رقم انکی اپنی تجوریوں میں چلی گئی جن کے منہ عمروعیار کی زنبیل کی طرح بھرتے نہیں۔
Lahore
تخت لاہور کے ایک اور وارث خادم پنجاب میاں شہباز شریف نے کچے کے بچے کھچے لوگوں کی معیشت کو بچانے کیلئے اٹھارہ کروڑ روپے کے حفاظتی بند باندھنے کا وعدہ کیا خدا کرے یہ وعدہ وفا ہو سکیجب نارسائیوں کی دھند چھائی ہوتو منز ل کے راستے گم ہو جاتے ہیںدکھوں کی وادی میں بسیر ا ہو تو طیور کی نغمگی من کونہیں لبھاتی زندگی کی نائو بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہو تو جگنو،پھول، باد صبا،چاند ستارے، جھرنے، نخلستان، شاہراہیں، پگڈنڈیاں، کھیت، کھلیان، سبزہ زار، نسیم سحر، رمجھم، بونداباندی، دھوپ چھائوں، کلیاں، نیلگوں آسماں، اس آسمان کی وسعتوں میں اڑتے رنگا رنگ پرندے، سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے بادل کے آوارہ ٹکڑے سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے مچھیرا صبح دم جال لیکر نکل پڑے اور شام کو اسکے پاس ایک مچھلی بھی نہ ہوگولیاں ٹافیاں بیچنے والا کوئی نونہال سارا دن ایک ٹافی بھی نہ بیچ سکیاعلیٰ لوگوں کی عمدہ گاڑیاں صا ف کرنے والا عمدہ پھول تھکے قدموں سے دن ڈھلے اپنی دن بھر کی کمائی سے ایک وقت کا آٹا بھی نہ خرید سکیگلاب رخساروں والی بچی جو دروازے میں بیٹھی اپنے ابو کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہوانہیں کبھی پوچھو کہ زندگی کیا ہے؟
کچے کے بے گھر لوگوں کی زندگی آج دکھوں کی آماج گاہ ہیآلام کا گھر ہے، مصائب کی وادی ہے، اشکوں کا خزانہ ہے،المیوں کا منبع ہے، ناکامیوں کا دریا ہے،نامرادیوں کی شاہراہ ہے، مسائل کا جنگل ہے،مشکلات کا پہاڑ ہے میں کچے کے لوگوں کا قرض لفظوں کی صورت اتارنے میں اکثر ناکام رہتا ہوں لیکن اندر کے احساس کو لفظوں کی بساط بچھا کر مطمئن کرنا بھی ضروری ہے۔
بات پرانی نہیں کل کی ہے چند برسوں پر محیط سفر ایک پل میں تمام ہو گیااجڑنے والے اجڑ گئے اور کسی کو خبر نہ ہوئی کہنے والے کہتے ہیں احساس کی آگ چتا کی آگ سے زیادہ اذیت ناک ہو تی ہے اس لیے کہ چتا کی آگ میں صرف جسم جلتا ہے جبکہ احساس کی آگ میں جسم اور روح دونوں جلتے ہیں واصف نے عرصہ پہلے کچے کے مظلوم عوام کی حالت زار کو لفظوں کی زبان یوں دی۔ ساڈے بھانڑ تے غربت چھا گئی ہِے اسں پتن دیاں چھائیں ویچ دیتن اساں بیٹ دے ساوے ونڑ ویچے اساں پینگھاں لاہیں ویچ ڈیتن ساڈا مال وکا گئے منڈیاں تے اساں کانے کاہیں ویچ ڈیتن
توں واصف ونگاں اج گھن آئیں اساں کڈن دیاں باہیں ویچ ڈیتن